فوج کی جانب سے آپریشن شروع کرنے کی خبر آئی تو ہیلری کلنٹن کی کتاب کے باب نمبر سات پر تھا۔ یہ باب بتاتا ہے کہ امریکا نے ایف پاک کی اصطلاح کب کیوں اورکیسے استعمال کرنا شروع کی، اور کیسے اوباما نے افغانستان میں امریکی فوج بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ باب پڑھتے ہوئے خواہ مخواہ نواز شریف اور امریکی صدر کا تقابلی جائزہ لینے لگا۔
اوباما امریکی صدر بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے تو عراق سے فوج واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن جب وہ صدر منتخب ہو کر اپنے دفتر پہنچے تو ان کی میز پر پینٹاگان کی جانب سے ایک لفافہ دھرا تھا۔ پینٹاگان نے ان سے "درخواست” کی تھی کہ افغانستان میں ہزاروں مزید فوجی بھجوا دیے جائیں۔ یوں فوجیں واپس بلانے کا وعدہ کر کے صدر بننے والے شخص نے افغانستان میں مزید 17 ہزار فوجی بھجوا دیے۔
نواز شریف بھی دہشت گردوں سے مذاکرات کا وعدہ کر کے اقتدار میں آئے۔ ادھر سے مذاکرات کی پیش کش ہوئی، تو ادھر سے پاکستانی جرنیل کو شہید کر دیا گیا۔ یہاں سے بات چیت کا ڈول ڈالا جاتا، تو وہاں ہمارے جوانوں کے سر کاٹ دیے جاتے۔ خیر نہ ان کا دل پسیجا، نہ اُن کا۔۔۔مذاکرات چلتے رہے۔
اوباما نے دفتر سنبھالتے ہی ایک تجزیاتی جائزہ تیار کرنے کا حکم جاری کیا۔ یعنی ایک جانب تو وہ فوج بھجوا رہے تھے، دوسری جانب صورتحال پر مستند رائے بھی حاصل کررہے تھے۔
نواز شریف نے دفتر سنبھالا تو ہر کسی سے مشورہ کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ بھانت بھانت کی سیاسی شخصیات کو بٹھا کر کل جماعتی کانفرنس کی میز سجائی۔ مذاکرات پر رائے توحاصل کرلی، طریقہ کار کوئی نہ وضح کیا۔
اومابا کو جو تجزیہ پیش کیا گیا، اس کے مطابق افغانستان اور پاکستان کو ایک ہی مسئلہ گردانا گیا۔ اور ایف پاک کی اصطلاح وضح ہوئی۔یعنی خطے کی دہشت گردی اور مفادات دونوں آپس میں جڑے ہیں۔
ایف پاک کی اصطلاح سچ ثابت ہوئی۔ پاکستانی جرنیل کو شہید کرنے والا ملا فضل اللہ افغانستان جا کر چھپ گیا۔
افغانستان اوباما کا کچھ نہیں لگتا۔ وہ جب چاہے اسے چھوڑ کر جا سکتا ہے۔
نوازشریف جب چاہیں پاکستان کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ (ویسے ملک سے باہر اثاثوں کی خبریں درست ہیں تو نوازشریف بھی کسی بھی وقت پاکستان کو چھوڑ کر جا سکتے ہیں)۔
اگر اوباما ایک دوسرے ملک کے بارے میں ایک سنجیدہ رویہ رکھ سکتا ہے، تو نوازشریف کو اپنے ہی ملک کے بارے میں اتنا ہی سنجیدہ رویہ رکھنا ہوگا۔
اگر یہ دہشت گرد ایک دشمن کی طرح ہمیں مار رہے ہیں، پھر ہمیں بھی ان دہشت گردوں کو دشمن ہی سمجھنا ہو گا۔
چھاہ گئے
پسند کریںپسند کریں