حلیمہ کو میڈیا نے مارا

اصل کہانی پروگرام کے بعد شروع ہوتی ہے۔۔۔
7جون 2013 کو ایکسپریس نیوز پر ایک پروگرام پیش کیا گیا۔ ملتان ریجن سے تعلق رکھنے والی کچھ خواتین کھلاڑی اس پروگرام میں شریک ہوئیں اور ملتان کرکٹ کلب کے عہدے داروں پر جنسی نوعیت کے الزامات لگائے۔
پروگرام کے اینکر کرید کرید کر تفصیلات پوچھتے رہے، "ہوتا کیا ہے؟، کہتے کیا ہیں؟” جیسے سوالات کی تکرار کی گئی ، اور بار بار کی گئی۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ٹیم میں شامل کرنے کے لیے ان سے کیا مطالبہ کیا گیا۔ وہ مطالبہ ایسا تھا کہ میں اسے لکھ نہیں پا رہا، البتہ وہ چینل پر دھڑلے سے نشر کر دیا گیا۔
کھلاڑیوں نے ایسی باتیں بھی کیں، "پہلے یہ آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں لے جانے کےخواب دکھائیں گے، لیکن پھر یہ آپ کو بیڈ روم لے جائیں گے۔”
جو حضرات ان الزامات کا نشانہ تھے، ‘صحافتی ذمہ داریوں’ کوپورا کرتے ہوئے ان کا موقف بھی لیا گیا۔ ان میں ملتان کرکٹ کلب کے سربراہ مولوی سلطان عالم بھی تھے۔ ہر الزام کے بعد اینکر ان سے پوچھتا، "مولوی سلطان صاحب، ستر سال آپ کی عمر ہے، آپ ان الزامات کو کیسے جھوٹا ثابت کریں گے۔” میں توڈرنے لگا کہیں اینکر حضرت چار گواہوں کو نہ طلب کر لیں۔
Haleema rafiqپروگرام کا مواد کتنا لغو تھا، سردست مجھے اس سے غرض نہیں۔ مجھے غرض ہے حلیمہ رفیق سے۔ وہ بھی شرکاء میں شامل تھی، پینتیس منٹ کے پروگرام میں اسے بھی چند منٹ کا ائیر ٹائم ملا۔  پروگرام ختم ہوا ، اینکر نے ایک دھانسو شو پیش کرنے پر خود کو تھپکی دی، غالباً یہ جملہ بھی کہا ہوگا، "پروڈیوسر صاحب! اج دی ریٹنگ تے پھٹے چک دئے گی”، اور گھر چلے گئے۔
اصل کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ پروگرام کے بعد حلیمہ رفیق کوہتک عزت کا نوٹس مل گیا۔وہ اور اس کا خاندان دباؤ کا شکار ہو گئے۔ حلیمہ نے کیمرے کا سامنا تو کر لیا تھا، قانونی نوٹس کا سامنا نہ کر پائی۔ 14 جولائی 2014 کو اس نے تیزاب پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔
ستم ظریفی دیکھیے، کہ جس چینل نے حلیمہ رفیق کو پروگرام میں مدعو کیا تھا، اس نے نوٹس بھجوانے والی شخصیت کا نام تک نہ دی۔ مرنے کی خبر یوں تھی۔۔۔بااثر شخصیت کی جانب سے ہرجانے کے دعوے کے بعدحلیمہ نے تیزاب پی لیا۔ انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہوسکیں اور انہیں آبائی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔
اب مجھے بتائیے، قاتل میڈیا ہے یا قانون؟ ٹی وی اسکرین پر عدالت لگا لینا، اور جنسی الزامات کی تحقیقات کرنا۔ بھرپور ریٹنگ حاصل کرنا اور اگلے شکار کی تلاش میں نکل پڑنا۔۔۔کہاں کی صحافت، کہاں کی اخلاقیات؟
شاید حلیمہ نے قانونی نوٹس ملنے کے بعد اس اینکر سے بھی رابطہ کیا ہو، آواز اٹھانے کے لیے مدد مانگی ہو۔ شاید اینکر نے اسے بتا دیا ہو، کہ تم مرجاؤ گی تو خبر میں نوٹس بھیجنے والے کا نام تک نہیں لکھا جائے گا۔
شاید حلیمہ تیزاب سے نہ مری ہو، اینکر کی اس بات سے مر گئی ہو۔

3 thoughts on “حلیمہ کو میڈیا نے مارا

  1. I agree with you in toto! Lekin mere bhai Umair, media bhi isi system ka aik ingredient ha jis ki ghair paishawarana aur ghair akhlaki kartooto’n ki wajah se logon ki zindagia mutasir hoti hain. Qatal media k zariay he hua magar qatil ryasat he ha jis ne sub ko madar pidar azad chor kar khud ko apni zimaydario se mubara kar rakha ha

    پسند کریں

تبصرہ کریں