نیوز روم میں بھانت بھانت کے صحافی پائے جاتے ہیں۔ کسی کی باتوں سے خوشبو آتی ہے، تو کسی کی سوچ بھی ماحول بدبودار بنادیتی ہے۔ کوئی روتے میں بھی ہنسی بکھیر دیتا ہے اور کسی کا قہقہہ بھی خوفزدہ کر دیتا ہے۔ کسی کو گلے لگانے کا جی چاہتا ہے، اور کسی کا گلا دبانے کی خواہش ہوتی ہے۔ ہم نے قارئین کی سہولت کے لیے صحافیوں کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
فارغ صحافی: یہ صحافی دن بھر دفتر میں کرسیاں توڑتے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ مصروف نظر آنے کا گر سیکھ جاتے ہیں۔ کسی ویب سائیٹ سے کوئی خبر کاپی کرتے ہیں، اور ایک لفظ تبدیل کیے بغیر فائل کردیتے ہیں۔ اکثر اوقات اس ویب سائیٹ کا نام ہٹانا بھی بھول جاتے ہیں۔ خبر فائل کرنے کے بعد متعلقہ افسران تک کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ایسے صحافی اپنی کرسی پر کم اور باس کے کمرے میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جب باس کے کمرے میں نہ ہوں، تو دفتر کے ٹیلی فون پر محو گفتگو ہوتے ہیں۔
مصروف صحافی:یہ صحافی دفتر میں صرف کام کرنے آتے ہیں۔ تھوڑی دیر کا کام بھی زیادہ دیر لگا کر کرتے ہیں، اور پھر بھی کام ختم ہو جائے تو بے یقینی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ فارغ صحافیوں سے شدید حسد کرتے ہیں۔ ہر تھوڑی دیر بعد جھانک کر باس کے کمرے میں دیکھتے ہیں، وہاں فارغ صحافی کو موجود دیکھ کر دانت پیستے ہیں اور دل میں برے برے خیالات کو جگہ دیتے ہیں۔ یہ اکثر اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں، لہذا خوشامد وغیرہ کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ جس عہدے پر نوکری شروع کرتے ہیں، ساری عمر اسی پر رہتے ہیں۔
شرم ناک صحافی: یہ صحافی دفتر میں کمپیوٹر آن کرتے ہی ڈیلی میل کی ویب سائیٹ پر جاتے ہیں۔ وہاں موجود تمام چسکے دار خبریں پڑھ کر کوئی کام شروع کرتے ہیں۔ فلموں اور اسکینڈلوں کی خبروں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہر آئٹم سانگ کے آنے پر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے یہ ان کی محبوبہ پر فلمایا گیا ہو۔کئی دن عنوان بدل بدل کر اس آئٹم سانگ کو خبرنامے کی سرخیوں میں شامل کرتے ہیں۔
ڈرپوک صحافی: یہ وہ صحافی ہیں جو ہر وقت ہر بات سے ڈرتے ہیں۔ باس کا فون آ جائے تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ یہ ہر کام باس سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ باس سرراہ بھی کوئی بات کہہ دے تو اسے حکم کا درجہ دیتے ہیں۔ ہرفیصلہ تاخیر سے کرتے ہیں، اور کوئی فیصلہ خود سے نہیں کرتے۔ خبر کی خبریت پر کم اور حکم حاکم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
بےباک صحافی: یہ صحافی بظاہر پر اعتماد نظر آتے ہیں۔ خبر سے متعلق فیصلےپرجلدی پہنچ جاتے ہیں۔ بے باکی انہیں خود سر بھی بنا دیتی ہے۔ افسران کے فیصلوں پر تنقید شروع کردیتے ہیں اور اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔
پریشان صحافی: انہیں لگتا ہے کہ ساری دنیا ان کی دشمن ہے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ سارا کام انہی سے کرایا جاتاہے اور دیگر کارکن کچھ نہیں کرتے۔انہیں کام نہ دیاجائے تو پریشان ہوتے ہیں، کام دے دیا جائے تو زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔
حیران صحافی: یہ صحافی ہمہ وقت حیران رہتے ہیں۔ کوئی واقعہ ان کی توقع کے عین مطابق بھی ہو جائے تو حیران ہو جاتے ہیں۔
خوفناک صحافی: یہ صحافی دفتر میں موجود ساتھیوں کو ڈرا کر رکھتے ہیں۔ کوئی کام کہہ دیاجائے تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ اپنے آپ سے باآواز بلند بڑبڑاتے ہیں اور ساتھیوں کو برابھلا کہتے رہتے ہیں۔ نیوز روم میں کہیں کوئی غلطی ہو یہ اونچی آواز میں اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔اصلاح کے نقطہ نظر سےانہیں کچھ کہا جائےتو علی الاعلان غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنی غلطی درست کرنے کے بجائے کہتے ہیں "آپ نے بھی تو پچھلے مہینے فلاں غلطی کی تھی۔”
ہولناک صحافی:یہ صحافی بولنے سے زیادہ چیخنے پر یقین رکھتے ہیں۔ پاس بیٹھے شخص سے بھی چیخ کر بات کرتے ہیں، لہذا ان کی وجہ سے پورے دفتر پر ہول طاری رہتا ہے۔ہر وقت کچھ کرنے کو بے تاب رہتے ہیں، کوئی خبر ہاتھ آئے تو اتنی بلند آواز سے بتاتے ہیں کہ دوسرے چینل والے بھی سن لیتے ہیں۔
دانشور صحافی: یہ صحافی سارے جہان کا درد اپنے جگر میں سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔اکثر اوقات مہمل باتیں کرتے ہیں اور پھر خود ہی اپنے آپ کو داد دیتے ہیں۔دفتر میں موجود تمام افراد کی عقل کو ناقص گردانتے ہیں، اور اپنے فرمائے ہوئے کو مستندسمجھتے ہیں۔
عبرت ناک صحافی: ان صحافیوں کو دیکھ کر لوگ صحافت سے عبرت پکڑتے ہیں۔ عمر دراز کے چار دن قلیل تنخواہ کےانتظار میں گزارتے ہیں۔ صحافت سے لیتے کچھ نہیں، بہت کچھ دے کر چلے جاتے ہیں۔
عمیر۔۔بہت اچھا لکھا آپ نے اور پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں لوگ آتے جارہے تھے جو ان کیٹگریز پر پورا اترتے ہیں۔۔ویل ڈن
پسند کریںپسند کریں
حوصلہ افزائی کا شکریہ
پسند کریںپسند کریں
ڈاکٹر صاحب کیوں ہماری لینے پہ تلے ہوئے ہیں۔۔۔۔
پسند کریںپسند کریں
جبار صاحب یہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں، ہر جگہ ایسا ہی معاملہ ہے۔ آپ فکر نہ کریں
پسند کریںپسند کریں
اور جناب کس قسم میں شمار ہوتے ہیں؟ یا آپ کے لیے علیحدہ کیٹگری ایجاد کرنی پڑے گی؟
پسند کریںپسند کریں
باسط صحب اپنے ہر تو تمام اقسام ہی لاگو ہوتی ہیں سوائے خوفناک اور ہولناک کے
پسند کریںپسند کریں
بھائی کمال کردیا مجھے اپنے کئی دوستوں کی خوبیوں کااحساس کالم پڑھ کرہوا
پسند کریںپسند کریں
AAp ne bahut acha likha hai, aap ne Newsroom kay satah k sahafion k aqsam likhay hain lekn sahafion k aqsam mein reporters ko nazarandaz nahi kia ja skta, Q reporters ain ehm juz hai.
پسند کریںپسند کریں
well done Umair sahab lekin aik category to reh gai jo ke Pakistan mea aj kal kasraat se pai jati hai wo hai Emaan farosh Sahafi
پسند کریںپسند کریں