ٹیلی وژن پر خبرنامہ ترتیب دینے والے پروڈیوسر کو دو قسم کے اینکروں سے پالا پڑتا ہے۔ خبریں پڑھنے والے اینکر اور خبریں اجاڑنے والے اینکر۔ ان دونوں اقسام کو مزید ذیلی درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
نخریلے اینکر: ہر روزدفتر آنے سے پہلے ان کی گاڑی، اور دفتر آنے کے بعد گلا خراب ہو جاتا ہے۔جس دن یہ دونوں چیزیں خراب نہ ہوں، اس دن ان کا موڈ خراب رہتا ہے۔ یہ اینکر اپنے پیشہ ورانہ فرائض بھی یوں انجام دیتے ہیں گویا دفتر والوں کی نسلوں پر احسان کر رہے ہوں۔ خبرنامے کی سرخیاں پڑھنے سے زیادہ سرخی لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
جوشیلے اینکر: یہ اینکر خبریں کم پڑھتے ہیں، اعلان جنگ زیادہ کرتے ہیں۔ کسی تنازعے کی خبر پڑھتے ہیں تو لگتا ہے ابھی فریق مخالف پر چڑھائی کا اعلان کر دیں گے۔ جوش میں وہ باتیں بھی کہہ جاتیں ہیں جو خبر میں لکھی ہی نہیں ہوتیں۔
دھیمے اینکر:یہ اینکر ہر خبرنامے سے قبل گلوکوز کی بوتل لگواتے ہیں۔۔۔آواز پھر بھی نہیں نکلتی۔ جتنا دھیما بولتے ہیں، اس سے دھیمی رفتار میں پڑھتے ہیں۔ ایک گھنٹے کا خبر نامہ دو گھنٹے میں ختم کرتے ہیں۔ ٹیسٹ میچ کی خبر پڑھنا شروع کریں تو خبر ختم ہونے تک میچ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
تجزیہ نگار اینکر: یہ اینکر بہت دانش ور ہوتے ہیں۔ خبرنامے میں وقفہ آئے تو اتنی دیر میں ایک کالم لکھ لیتے ہیں۔ باقی کے خبرنامے میں خبریں کم اور اپنا کالم زیادہ پڑھتے ہیں۔ خبر نامے کےبعد بھی اپنی دانش اور تجزیہ بکھیرتے رہتے ہیں، آپ ان سے اتفاق نہ کریں تو آپ کی عقل کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
صابر اینکر:اینکروں کی یہ قسم پروڈیوسروں میں بہت مقبول ہے۔ انہیں جتنا بھی کام دیا جائے، خوش اسلوبی سے کرتے ہیں اور ماتھے پہ شکن تک نہیں لاتے۔شکوہ ان کے دل میں کبھی آئے تو آئے، زباں پر کبھی نہیں آتا۔ احساس کرتے ہیں، اور اکثر دوسروں کے حصے کا کام بھی کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ان کا شکرگزار نہیں ہوتا، جہاں موقع ملے ان کا استحصال کرتا ہے۔
حساس اینکر: یہ اینکر دل کےبہت نازک ہوتے ہیں۔ آنسو ہر وقت ان کی پلکوں پر ہوتے ہیں، لیکن رونا ان کی وجہ سے پروڈیوسر کو پڑتا ہے۔ اور کسی پر رحم کھائیں نہ کھائیں، اپنے پہ ضرور کھاتے ہیں۔ انہیں ہر وہ بات ناگوار گزرتی ہے جس کا سارے فسانے میں ذکر تک نہیں ہوتا۔
بے حواس اینکر: یہ اینکر ایک گھنٹے کے خبرنامے میں ایک خبر بھی ڈھنگ سے نہیں پڑھتے۔۔۔اپنے اور نیوزروم والوں کے حواس پر بجلیاں گراتے رہتے ہیں۔خبر پڑھتے ہوئے جہاں وقفہ کرنا ہو، صرف وہاں نہیں کرتے، باقی ہر جگہ کرتے ہیں۔ اگر لکھا ہو” بجلی مہنگی ہو۔۔نامنظور ہے” تو یہ پڑھتے ہیں "بجلی مہنگی ہونا۔۔۔منظور ہے۔” اکثر دعا کو دغا پڑھ جاتے ہیں، اور پروڈیوسر بے چارہ محرم سے مجرم بن جاتا ہے۔ایسے اینکر وزیرداخلہ کا انٹرویو کرتے ہوئے پاک ایران گیس پائپ لائن سے متعلق سوال پوچھ لیتے ہیں، اور وزیرخارجہ سے آٹے دال کا بھاؤمعلوم کرتے ہیں۔
لاپروا اینکر: یہ نوکری اور بادشاہت میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ ہمیشہ تاخیر سے آتے ہیں اور وقت سے پہلے چلے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو جواب نہیں دیتے، فقط کندھے اچکاتے ہیں۔ اسٹوڈیو میں بھی موبائل اپنے پاس رکھتے ہیں۔ خبریں پڑھنے کے دوران بھی کوئی کال آجائے تو وصول کر لیتے ہیں، ورنہ فیس بک پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔
پڑھیے: ایک جلے بھنے اینکر کا جواب
صحافیوں کی اقسام بھی پڑھیے۔
عمیرصاحب چھا گئےہیں۔۔۔ لگتاہے آپ نے اس کالم میں خوب دل کی بھڑاس نکالی ہے
پسند کریںLiked by 1 person