رکشہ ہوا سے باتیں کر رہا تھا، اور میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش میں تھا۔
رکشے والا ایک مغرور شہ سوار کی مانند،راستے میں آنے والی ہر شے پر ایک حقارت بھری نظر ڈالتا، اور آگے بڑھ جاتا۔ گاڑیاں، موٹرسائیکل اور ٹریفک کے سگنل، رکشے والا سب کو کاٹتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جارہا تھا۔
جب اس نے یکے بعد دیگرے تین سگنل توڑے تو میں تھوڑا حیران ہوا۔
"بھائی صاحب، آپ سگنل توڑتے جارہے ہیں، چالان کی کوئی فکرنہیں ہے آپ کو؟” میں پوچھ ہی بیٹھا۔
"صاحب میرا بھائی ٹریفک وارڈن ہے، کہیں چالان وغیرہ ہونے لگے تو وہ سفارش کردیتا ہے، اس لیے مجھے کوئی فکر نہیں۔”
حیران میں پہلے ہی تھا، رکشے والے کا جواب مجھے پریشان بھی کر گیا۔ یعنی اس کا بھائی ٹریفک وارڈن ہے، اور یہ پورے شہر میں سگنل توڑتا پھر رہا ہے۔ کسی اونچے عہدے پر ہوتا تو نہ جانے کیا کرتا۔
اتنی دیر میں ہم ایک بڑے چوک تک پہنچ گئے۔ میری منزل چوک کے قریب ہی تھی، لیکن سگنل کی وجہ سے تھوڑا گھوم کر آنا پڑتا تھا۔رکشے والے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ون وے کے مخالف چلنا شروع کر دیا۔
میں نے سوچا، یہ تو بہت اہم چوک ہے، ٹریفک وارڈنز کی بھاری نفری موجود رہتی ہے، یہاں تو چالان ضرور ہو گا اس کا۔
اتنے میں وہ کہنے لگا، "صاحب یہاں میرے بھائی کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔” تھوڑا آگے بڑھے تو اس نے دائیں جانب اشارہ کر کے کہا، "وہ رہا میرا بھائی۔”
میں نے دائیں جانب دیکھا،رکشے والےکا بھائی غلط پارکنگ پر ایک گاڑی والے کا چالان کر رہا تھا۔