ساری رات مجھے ٹھیک سے نیند نہ آسکی، برے برے خواب آتے رہے۔
صبح سویرے اٹھ کر میں نے ڈیڈ سے پوچھا۔۔۔ڈیڈ میری تقریر ٹوئٹر پر نہیں ہو سکتی؟
ڈیڈ نے منع کر دیا۔ میں نے زمین پر لیٹ کر زور زور سے ٹانگیں چلانا اور رونا شروع کر دیا۔ پھر ڈیڈ نے وعدہ کیاکہ میں تقریر کروں تو وہ مجھے نئے ماڈل کا کیو موبائل لے کر دیں گے۔تب جا کر میں راضی ہوا۔
اب جناب، سب پارٹی والے مجھے تقریر کا رٹا لگوانے لگے۔ لیکن ایک مسئلہ ہو گیا۔۔۔ میں جب زور سے بولتا تھا تو پہلے میرا اور پھر ان سب کا ہاسا نکل جاتا تھا۔
تقریر بھی عجیب سی تھی۔۔۔بار بارکسی قائدعوام، جمہوریت اوربی بی کی روح کا ذکر آجاتا۔ مجھے توویسے ہی روحوں سے ڈر لگتا ہے۔ میں نے ڈیڈ سے پوچھا یہ آمریت کی گود کیا ہوتی ہے؟ اور کیا نواز شریف ضیاءالحق کو ڈیڈی بھی کہتے تھے یا ویسے ہی ان کی گود میں جا کر بیٹھ جاتے تھے۔ میں نے یہ بھی پوچھا کہ میرے نانا جان کسی فوجی ڈکٹیٹر کو ڈیڈی تو نہیں کہتے تھےنا؟
پتہ نہیں کیوں، میں جب سوال کرتا ہوں ڈیڈ غصےمیں آ جاتے ہیں۔
جب میں نے نعرہ لگایا مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں تو میرے ذہن میں ایک اور سوال آگیا۔ میں نےڈیڈ سے پوچھا کیا 1971 میں نانا جان نے بھی نعرہ لگایا تھا "مرسوں مرسوں بنگلہ دیش نہ ڈیسوں۔”ڈیڈ ایک بار پھر غصے میں آگئے۔میں نے بڑی مشکل سے تقریرکر کرکے انہیں ہنسایا۔
تھوڑی دیر بعد ایک بندے نے آکر بتایا کہ ہیلی کاپٹر آیا ہے، جو مجھے جلسہ گاہ لے کر جائےگا۔
ہیلی کاپٹر؟ میں نےڈیڈسے پوچھا،کیا ہماری جماعت میں بھی کوئی جہانگیر ترین ہے؟ ڈیڈ نے بتایا ہمارے جہانگیر ترین کا نام ملک ریاض ہے۔
پھر میں جا کر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گیا۔ ہیلی کاپٹر اڑا تو میں نے موبائل نکال کر کچھ سیلفیز لیں اور ٹویٹ کردیں۔
اتنی دیر میں مجھے ایک سفید سا مزار نظر آیا۔ میں نے کہایہ کیا ہے؟
پائلٹ بولا یہ قائد کا مزار ہے۔
میں نے کہاقائد عوام کا یا قائد تحریک کا۔
پائلٹ نے کہا نہیں، قائد اعظم کا۔ میں نے کہا اچھا، وہ فوت ہو گئے ہیں؟ بڑا افسوس ہوا۔
واہ عمیر بھائی م،زہ آگیا۔۔
پسند کریںپسند کریں
واہ عمیر بھائی مزہ آگیا۔۔
پسند کریںپسند کریں