ان کی شکایت

ہمارے ٹیلی وژن چینل پر بین الاقوامی خبروں کے لیے ایک ڈیسک ہے۔ دنیا بھر سے پاکستانیوں کی دلچسپی کی خبریں تلاش کرنا، اور اردو میں ترجمہ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ایک زمانے میں   ڈیسک کا انچارک ایسی خاتون کو بنایا گیا جو اردو لکھنا جانتی تھیں نہ بولنا۔ کسی دوسرے ملک سے پاکستان آئی تھیں، اور انگریزی اخبار سے منسلک رہی تھیں۔ اب کام کی صورت کیا ہو؟ وہ جس خبر کو ضروری سمجھتیں، اس کے اہم حصوں کو نشان زدہ کر کے ماتحت عملے کو دے دیتیں۔  وہ ترجمہ کرتا، خاتون تصدیق کرتیں کہ نشان زدہ حصے خبر میں شامل ہیں، اور خبر فائل کر دی جاتی، جس کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو منٹ تک کا ہوتا۔ ٹیلی وژن کے لیے زیادہ سے زیادہ تیس سیکنڈ کی خبر بنائی جاتی ہے۔ خبر اہم ہو، اورطویل ہو جائے تو رپورٹ کی شکل میں ڈھالی جاتی ہے۔چونکہ وہ خاتون اخبار سے آئی تھیں، ٹیلی وژن کے تقاضوں سے ناواقف تھیں۔ اخبار کے بین الاقوامی صفحے پر سنجیدہ اور طویل خبریں ہوتی ہیں۔ ٹی وی میں وہ خبریں پسند کی جاتی ہیں جو دیکھنے میں دلچسپ ہوں۔ مسئلاً اگرماحولیات کے مسئلے پر اقوام متحدہ کا اجلاس ہے، اور دوسری جانب چین میں کسی پانڈا کی سالگرہ ہے، تو ٹیلی وژن کے لیے یہ دوسری خبر زیادہ اہم تصور کی جائے گی۔ خبر اور اس کے دورانیے پر اختلاف رہتا،لیکن یہی بات ان خاتون سے کہنا  مشکل تھا (انگریزی جو بولنی پڑتی تھی)،  جان جوکھوں میں ڈال کر کہہ بھی دیتے تو وہ سمجھ نہیں پاتی تھیں۔ ان سے کہا جاتا ہاتھی کا بچہ گڑھے میں گر گیا، خبر بنا دیجیے۔ وہ ہنسنے لگتیں، کہتیں یہ بھی کوئی خبر ہوئی۔

پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ خواتین اور انگریزی سے بدکتے ہیں۔ اور پھر انگریزی بولنے والی خواتین سے پالا پڑ جائے تو پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہم نے حل نکالا کہ خبریں خود ہی بنانے لگے،لیکن یہ بات بھی ان خاتون کو پسند نہ آئی اور انہوں نے شکایت لگا دی۔ہم محتاط ہو گئے اور بین الاقوامی خبروں پر تقریباً فاتحہ پڑھ لی۔ ایک دن وہ خاتون غصے میں بھری ایک کاپی ایڈیٹر صاحب کے پاس گئیں۔ کاپی ایڈیٹرحضرات  خبر کی نوک پلک درست کر کے اسے نشر کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ کوئی بھی خبر کاپی ایڈیٹر کی کانٹ چھانٹ کے بغیر نشر نہیں کی جاتی۔ خاتون کو غصہ یہ تھا کہ جو خبر انہوں نے کچھ دیر قبل بنائی تھی، اس کی کانٹ چھانٹ (ایڈیٹنگ) کیوں نہیں کی گئی۔ کاپی ایڈیٹر خبر نامے کو دیکھتے ہوئے اپنی ترجیحات مقرر کرتا ہے۔ جو خبر نشر ہونی ہے، اسے اول اول ایڈٹ کیا جائے گا، پھر دیگر خبروں پر نظر ڈالی جائے گی۔اب یہ بات انہیں انگریزی میں کون سمجھائے، اور کیوں سمجھائے۔ ظاہر ہے کاپی ایڈیٹر انہیں جواب دینے  کے مجاز نہ تھے۔ لہذا انہوں نے بے نیازی سے کندھے اچکا دیے۔ یہ دیکھ کر ان خاتون کا پارہ مزید چڑھ گیا۔ انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ دیگر ذمہ داران اس وقت نیوز روم میں موجود نہ تھے، اور ان کی نگاہ انتخاب ہم پر پڑی۔ ہم بڑے مزے سے تماشا دیکھ رہے تھے، انہیں متوجہ پایا تو فوراً کمپیوٹر سکرین میں سر دے دیا۔ وہ تیر کی طرح ہماری طرف آئیں اور انگریزی میں شکایت کی، "یہ خبر فلاں وقت پر بنائی گئی، اور اتنے منٹ گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس پر توجہ نہیں دی گئی۔” ہم نے چاہاکہ  انہیں سمجھائیں،  بی بی آپ کا مسئلہ صرف خبر بنانے تک ہے۔ اسے کس نے ایڈٹ کرنا ہے، کب کرنا ہے، اس کی فکر آپ کو نہیں ہونی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ہم نے انگریزی کی تمام صلاحتیں یکجا کیں، تھوک نگلا، اور بس اتناہی کہہ پائے "اوکے!” وہ سٹپٹا گئیں۔ کچھ دیر تک ہمیں تکتی  رہیں کہ شایداس یک لفظی فکرے کی کوکھ سے کوئی وضاحت پھوٹے گی۔ لیکن "اوکے” کے بعد ہماری انگریزی مزید کسی وضاحت کے قابل نہ رہی تھی۔ وہ ہمیں بے یقنی اور ہم انہیں بے بسی سے دیکھا کیے۔انہوں نے ایک بار پھر تمام مدعا انگریزی میں کہہ سنایا۔کہ انہیں خبر بنائے اتنی دیر ہو چکی ہے لیکن اسے ابھی تک کانٹ چھانٹ کے مرحلے سے کیوں نہیں گزارا گیا۔ ہم نے پھر سمجھانے کی کوشش کی، کہ آپ کی بنائی خبر خبرنامے میں شامل نہیں۔ کاپی ایڈیٹر پہلے ان خبروں پر توجہ کریں گے جو خبرنامے کا حصہ ہیں، پھر آپ کی خبر بھی ایڈٹ ہو جائے گی، لہذا آپ بے فکررہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ساری کی ساری انگریزی مجتمع کی، کچھ دیر تک ذہن میں سوچے فکرے کی ساخت اور گریمر پرکھتے رہے، پھر تھوک نگلا اور کہہ دیا "اوکے!” اس کے بعد سے خاتون نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔

3 thoughts on “ان کی شکایت

تبصرہ کریں