زرداری کی کہانی، ہاشوانی کی زبانی

1983 کی رات ساڑھے گیارہ بجے صدر الدین ہاشوانی کو ایک کال موصول ہوئی۔
"سر ہوٹل کے ڈسکو میں جھگڑا ہو گیاہے۔” دوسری جانب میریٹ ہوٹل کراچی کے جنرل مینیجر تھے۔
جنرل مینیجرنے بتایا کہ دو افراد لڑ پڑے ہیں، اور ان کے گروہوں نے اسلحہ نکال لیا ہے۔ ہوٹل کے ڈسکو میں فائرنگ ہورہی ہے، بھگدڑ مچ گئی ہے۔صدرالدین ہاشوانی نےحکم دیا،  محافظوں سے کہہ کر ان افراد کو باہر پھینک دیا جائے۔
اس رات، لڑنے والے دو افراد میں سے ایک آصف زرداری تھے۔ جی ہاں، وہی آصف زرداری جو بعد میں بے نظیر کے شوہر بنے، پھر پارٹی کے شریک چیئرمین بنے ، اور پھر ملک کے صدر بن گئے۔
"سچ ہمیشہ غالب رہتا ہے،”یہ  آپ بیتی ہے  ہوٹل انڈسٹری میں نام کمانے والے صدر الدین ہاشوانی کی۔ انہوں نے کتاب میں اپنی کہانی تو کہی ہے، حکمرانوں کی داستانیں بھی لکھی ہیں۔
سیاسی نہیں، معاشی موقع
صدر الدین ہاشوانی لکھتے ہیں، آصف زرداری نے ڈسکو سے نکالے جانے کی بات دل میں رکھ لی۔جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں توان سمیت دوسرے کاروباری افرادکو  حراساں کیا جانے لگا۔۔۔ہاشوانی کے بقول، زرداری  بے نظیر کے وزیراعظم بن جانے کو  سیاسی نہیں بلکہ معاشی موقع سمجھ رہے تھے۔
ایک روز آصف زرداری کا فون آیا۔  انہیں صدر الدین ہاشوانی کی زمین کی ضرورت تھی۔ ہاشوانی نے پیشکش کی کہ وہ زرداری کو زمین اسی قیمت پر بیچ دیں گے جس پر انہوں نے مدت پہلے خریدی (حالانکہ اس وقت زمین کی قیمت کئی گنا بڑھ چکی تھی)۔
زرداری جب یہ ڈیل فائنل کرنے آئے تو زمین مفت میں حاصل کرنے کی خواہش ان کی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔ تاہم ہاشوانی نے زمین اسی قیمت پر دی جس پر خریدی تھی۔
اس کے بعد سےہاشوانی کی گاڑی کا تعاقب شروع ہوگیا۔ وہ جہاں جاتے ان کا پیچھا کیا جاتا۔عجیب و غریب لوگ ان کے گرد گھومتے، ان سے بات کرنے کی کوشش کرتے، یا کسی نہ کسی بہانے ان کے دفتر آجاتے۔
ایک بار انہیں بینک سے دوست کا فون آیا۔ دوست نے بتایا، ہاشوانی صاحب، آپ نے اپنے ہوٹلوں کے کاغذات ہمارے بینک کے لاکر میں رکھے ہیں، برائے مہربانی انہیں نکلوا لیں، کیوں کہ کسی نے ان پر بری نظر رکھ لی ہے۔
قتل کا منصوبہ
ایک دن ہاشوانی کے دفتر میں تین لوگ آئے۔ ان میں سے ایک نے دن کی روشنی میں بھی کالے شیشوں والا چشمہ لگا رکھا تھا۔ انہوں نے  کسی تقریب کے لیے چندہ مانگا۔ جب وہ جانے لگے تو ہاشوانی نے اپنا ایک آدمی ان کے پیچھے لگا دیا۔ اس نے سنا، کالے چشمے والا باقی دو سے کہہ رہا تھا، "یہی ہے وہ آدمی۔”
صدر الدین ہاشوانی نے پولیس والوں کوچشمے والے کا حلیہ بتایا۔ معلوم ہوا اس کا نام بشیر قریشی ہے، ایک جانا مانا جرائم پیشہ، اور اس کے ساتھ موجود دوسرا شخص لغاری تھا۔ہاشوانی مزید پریشان ہوگئے۔ انہوں نے لندن منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
جس روز انہیں لندن روانہ ہونا تھا، علی الصبح آٹھ بجے ایک فون موصول ہوا۔ یہ کور کمانڈر کراچی جنرل آصف نواز تھے۔ آصف نواز نے کہا "آدھے گھنٹے میں میرے دفتر پہنچ جائیں، اور معمول کا راستہ اختیار نہ کریں۔”
کور کمانڈر کے دفتر میں بتایا گیا کہ صدر الدین ہاشوانی کو اغواء کرکے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جا چکا ہے۔ اس کےلیے قریشی اور لغاری نامی دو مجرموں کو جیل سے رہا کیاگیا ہے۔ اور رہائی کے احکامات اسلام آباد سے موصول ہوئے۔ صدر الدین کو اغواء کیاجاتا، اور کچھ کاغذات پر دست خط کرا کے قتل کردیاجاتا۔
اسی شام، ہاشوانی فوج کی سیکیورٹی میں ائیرپورٹ پہنچے، اور خاندان سمیت بیرون ملک پرواز کرگئے۔
ٹونی شیخ کے لیے زمین
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے دوران حکومت نے فائیو اسٹار ہوٹل کے لیے زمین پیش کی۔ صدر الدین ہاشوانی نے بھی خریداری میں دلچسپی ظاہر کردی۔ ایک دن انہیں زرداری کا فون آیا، وہ یہ زمین اپنے ایک دوست طفیل شیخ، عرف ٹونی شیخ کو دینا چاہ رہے تھے۔ ہاشوانی مجبوراً اپنی پیشکش سے دست بردار ہوگئے۔
زرداری کو لیڈر کیسے لگے؟
زرداری وزیراعظم کے ہمراہ بیرون ممالک دوروں سے لوٹے تھے۔ ہاشوانی نے ان سے پوچھا، بین الاقوامی لیڈروں سے ملاقات کا تجربہ کیسا رہا؟ زرداری نے انہیں کیسا پایا؟آصف زرداری کے جواب نے ہاشوانی کو حیران کر دیا۔ زرداری کا بین الاقوامی لیڈروں سے متعلق کہنا تھا” وہ بے وقوف اور متوسط لوگ ہیں، جنہیں زمینی حقائق کا علم نہیں۔”
نوازشریف بھی ناراض
بے نظیر کو رخصت کیا گیا تو نواز شریف نے حکومت سنبھالی۔  کچھ لوگوں نے نوازشریف کے کان بھر دیے کہ ہاشوانی پیپلزپارٹی کو فوائد پہنچاتا رہاہے۔اس بات پر نوازشریف بھی ان سے ناراض ہو گئے۔ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ پی آئی اے کے ساتھ ان کے ہوٹل کا کیٹرنگ کنٹریکٹ بھی منسوخ کر دیاگیا۔  پی آئی اے کا عملہ ان کے ہوٹلوں میں ٹھہرایاجاتا تھا۔ اس عملے کو بھی دوسری جگہوں پر منتقل کردیاگیا۔
دعوت تک نہ ملی
نواز حکومت کی ناراضی جاری تھی کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس آ گیا۔ یہ اجلاس پاکستان میں ہونا تھا، دو دن رہ گئے تھے، اور اٹھارہ سو مہمانوں کی آمد متوقع تھی۔ حکومت پاکستان کے پاس اٹھارہ سو مہمانوں کے لیے مناسب انتظامات نہ تھے۔ حکام کی درخواست پر  صدر الدین ہاشوانی نے اسلام آباد، راولپنڈی اور بھوربن کے ہوٹل پیش کر دیے۔ لیکن ان تینوں ہوٹلوں میں صرف سات سو کمرے تھے۔ اس بنا پر ایم این اے ہاسٹل، کنونشن سینٹر،پنجاب ہاؤس، سندھ ہاؤس اور منسٹرز کالونی کے گھر بھی مہمانوں کے لیے مختص کر دیے گئے، اور ان کا انتظام بھی صدر الدین ہاشوانی کو دے دیاگیا۔ صرف دو دن میں ہاشوانی نے دوسرے شہروں سے اپنے ہوٹل کے ملازمین کو بلوایا، کمرے صاف کروائے، انہیں فائیواسٹار معیار پر تیار کیا، بستروں کی چادریں، کمروں کی آرائش اور سجاوٹ، باتھ روم کی فٹنگز۔۔۔سب کچھ فائیو اسٹار ہوٹل کے معیار پر لایاگیا۔کھانے کا انتطام کیا۔۔۔یوں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس کامیاب رہا۔
اس کے لیے سب کچھ کرنے والے صدر الدین کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ تک نہ دیا گیا۔
مشرف کو مشورہ
پرویزمشرف پاکستان واپس آنے کی تیاریوں میں تھے۔ صدر الدین کو ان عزائم کا علم ہوا تو انہوں نےمشرف کو باز رکھنے کی کوشش کی۔ مشرف نے کہا” تمہیں دیکھنا چاہیے کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر میرے چاہنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔” ہاشوانی نے جواب دیا، "اللہ کا شکر ہے، میں نے فیس بک پر اکاؤنٹ ہی نہیں بنایا ہوا۔”
زرداری مسکراتے بہت ہیں
جب آصف زرداری صدر بنے تو ایک برطانوی صحافی نے صدر الدین ہاشوانی سے کہا، ” ایک شخص جس کا ملک بحران میں ہو، اور جس نے چند ماہ قبل ہی اپنی بیوی کھوئی ہو۔۔۔اس حساب سے زرداری مسکراتے کچھ زیادہ ہی ہیں۔”
میریٹ ہوٹل پر حملہ
ہاشوانی لکھتے ہیں کہ صدر بننے کے بعد آصف زرداری اپنے پرانے ہتھکنڈوں پر لوٹ آئے۔ اور اب ان کے پاس "دہشت گردی” کا بہانہ بھی تھا۔2008 سے 2009 تک ان پر پانچ قاتلانہ حملے ہوئے۔ ایک دفعہ اسلام آباد میں ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی۔ ایک بار اسلام آبادمیں ہاشو گروپ کے صدر دفتر کو آگ لگائی گئی۔ پشاور میں ان کے ہوٹل کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔
اور پھر، اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ہاشوانی لکھتے ہیں کہ ایک کار ٹرک کے آگے آگے چل رہی تھی جیسے اسے راستہ دکھا رہی ہو، میریٹ ہوٹل کے دروازےپر وہ ٹرک ہوٹل کی جانب مڑ گیا، اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ یہ ہوٹل ایسی جگہ واقع ہے جہاں اہم عمارات ہیں۔ سپریم کورٹ ہے، صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہیں ہیں، پارلیمنٹ ہاؤس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کسی بھی غیر متعلقہ گاڑی کو چیک کیا جاتا ہے، پھر کیسے ایک بارود بھرا ٹرک یہاں تک پہنچ گیا؟
نیلے رنگ کی آگ
یہاں ایک اور بات ہوئی، جو مزید حیرت ناک ہے۔ دھماکا ہوٹل کے گیٹ پر ہوا، لیکن آگ چوتھی اور پانچویں منزل پر کمروں میں لگ گئی۔ لیکن یہ آگ نیلے رنگ کی تھی، اور یہ آگ بارود سے نہیں، کیمیکل سے لگائی گئی۔
سرکاری افسر کی کال
میریٹ دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد صدر الدین ہاشوانی کو ایک سرکاری افسر کا فون آیا۔ افسر نے کہا، "میڈیا کو بتائیں، صدر آصف زرداری ہوٹل میں آنے والے تھے، اور دھماکے کانشانہ بھی وہی تھے۔” آصف زرداری کی ٹیم نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی یہی کہانی بتائی۔ شاید وہ مغرب کو بتانا چاہتے تھے کہ بیگم کے بعد اب وہ بھی خطرے میں ہیں، اور یہ بیان مزید اہمیت رکھتا تھا کیونکہ زرداری کچھ ہی دنوں میں امریکا کا دورہ بھی کرنے والے تھے۔ لیکن ہاشوانی نے اس بیان کی تردید کر دی۔
رحمان ملک کی تفتیش
دھماکے کی رات اس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک نے صدر الدین ہاشوانی کو چائے پر بلایا۔ ہاشوانی نے پوچھا، "کس نے کیا یہ سب؟”
رحمان ملک نے فوراً جواب دیا، ” ظاہر ہے، بیت اللہ محسود نے۔”
ہاشوانی حیران رہ گئے، کہ رحمان ملک نے کچھ ہی دیر میں یہ کیسے پتہ چلا لیا کہ حملہ بیت اللہ محسود نے کرایا۔
صدر الدین ہاشوانی کی کتاب نہ صرف سیاسی سازشوں سے پردہ اٹھاتی ہے، بلکہ ایک عام آدمی سے لے کر ایک بڑی کاروباری شخصیت بننے تک ان کے شب و روز کی کہانی بھی کہتی ہے۔

4 thoughts on “زرداری کی کہانی، ہاشوانی کی زبانی

تبصرہ کریں