مشتاق احمد یوسفی کی اس نئی کتاب "شام شعر یاراں” میں ان کا روایتی انداز ماند نظر آتا ہے۔ مزاح میں کچھ کسر سی رہ گئی ہے، یا پھر شاید ہم نے امیدیں کچھ زیادہ وابستہ کر لی تھیں۔پہلی کتابوں کی ہر سطر پر قہقہہ پھوٹتا تھا، یہاں کئی کئی صفحے پلٹ جاتے ہیں اور زیر لب تبسم بھی نہیں آتا۔ایک دوست نے کہا یوسفی صاحب کوایسی کتاب نہیں لکھنی چاہیے تھی۔ لیکن ہم ان سے متفق نہیں۔کتاب یوسفی صاحب پر ان کے چاہنے والوں کا قرض تھا، جو انہیں ادا کرنا ہی تھا۔
کتاب سے چند جملے پیش ہیں۔
دنیا میں جتنی بھی لذیذ چیزیں ہیں، ان میں سے آدھی تو مولوی صاحبان نے حرام کر دی ہیں اور باقی آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔
اب تم جن نظروں سے مرغی کو دیکھنے لگے ہو، ویسی نظروں کے لیے تمہاری بیوی برسوں سے ترس رہی ہے۔
اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے۔۔۔اس اعتبار سے یہاں جو بھی آتا ہے، حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے!
آدمی کو جب تک صحیح وقت پر غلط صحبت نصیب نہ ہو، وہ انساں نہیں بنتا۔
نامقبول ہونا، بہر صورت نامعقول ہونے سے بہتر ہے۔
فیمی نسٹ خواتین سے ڈر لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سے اختلاف کیا جائے تو خفا ہو جاتی ہیں۔ اگر متفق ہو جائیں تو اور زیادہ خفا ہو جاتی ہیں۔
مرزا نے پروفیسر قاضی عبدالقدوس کو بتایا کہ انہوں نے پشاور میں سنا کہ وہاں ہیجڑے کو رسماً اور اخلاقاً پھوپھی کہتےہیں! مثلاً پھوپھی نرگس، پھوپھی خلیل! پروفیسر قدوس کے دل و دماغ پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ اپنی سگی پھوپھی کو ممانی کہنے لگے۔
چل ٹھیک اے۔۔۔۔
پسند کریںپسند کریں