کسی نے قاسم اور سلیمان کا شہر بند کرنے کااعلان نہیں کیا۔ وہ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی جمہوریت کسی شہر کو بند کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیےان کے اسکول بھی معمول کے مطابق کھلے ہوں گے۔ دونوں بھائیوں نے صبح عافیت کی چادر میں آنکھ کھولی ہوگی، اسکول جانے کی تیاری کی ہوگی، ماں نے مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ انہیں رخصت کیا ہوگا۔
ایک اور دنیا کے ایک اور شہر میں حق نواز نے بھی آنکھ کھولی ہوگی۔ جس دنیا کا ذکر ہے، وہاں حلقے کھولنے کے لیے شہر بند کرنے پڑتے ہیں۔
حق نواز کی ماں نے فکر مندی سےاپنے بیٹے کو تیار ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا۔بیٹے کو باہر جانے سے روکنے کے لیے کتنی تاویلیں گھڑی ہوں گی۔
آخر ممتا بیٹے کی ضد کے آگے ہار گئی ہوگی۔ دل کو سمجھالیا ہوگا۔۔۔”شام تک کی تو بات ہے۔ پھر خان صاحب جلسہ کریں گے اور میرا حق نواز واپس آ جائےگا۔”
لیکن یہ ماں کا دل بھی نا۔۔۔کتنی ہی بار خواہ مخواہ بےچین ہوا ہوگا۔ کتنی ہی بار اس نے خود کو تسلی دی ہوگی۔
پھر اس نے ٹی وی پر سنا ہوگا۔۔۔ ناولٹی چوک پر مسلح شخص کی فائرنگ۔ پی ٹی آئی کا ایک کارکن زخمی ہوگیا۔
اس ماں نے اپنے حق نواز کے لیے نہیں، سب بچوں کی سلامتی کی دعا مانگی ہوگی۔
پھر ٹی وی پر یہ خبر چنگھاڑی ہوگی۔ فائرنگ سے زخمی کارکن دم توڑ گیا۔
ماں کا دل کتنے ہی اندیشوں میں دھڑکا ہوگا۔شاید اس نے حق نواز کے موبائل پر فون کیا ہو۔کال ملنے کی ہر ناکامی ہر اس نے کوئی جواز تراشا ہو۔
خدا جانے اس کے لیے یہ اضطراب زیادہ جان لیوا تھا یا اپنے بیٹے کی موت کی خبر؟
پھر رات آ گئی ہوگی۔
سلیمان اور قاسم ایک بھرپوردن گزارنے کےبعدعافیت کی چادر اوڑھ کر سوگئے ہوں گے۔
حق نواز سفید لٹھا اور مٹی اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو گیا ہوگا۔
عمران خان جہانگیر ترین کے جہاز میں اڑ کر بنی گالا چلے گئے ہوں گے۔
اس رات حق نواز کی ماں نے اللہ میاں کے ٹریبیونل میں عرضی ڈالی ہوگی۔ "عمران خان کے حلقے نہ سہی، میرے بیٹے کی قبر ضرور کھولی جائے۔ شاید حق نواز مرا نہ ہو!”
(سیاق و سباق: تحریک انصاف نے 8 دسمبر 2014 کو فیصل آباد بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس روز حق نواز نامی کارکن کو فائرنگ کر کے قتل کردیاگیا۔)