ہمارے ایک اینکر کسی دوسرے چینل کو پیارے ہوئے، سوانہیں الوداعی دعوت دینے کافیصلہ ہوا۔ منصوبہ سازی میں "ملوث” ایک اینکری (خاتون اینکر) لاہور جم خانہ کی ممبر تھیں۔ وہیں چلنے کی تجویز پیش کی گئی اور کثرت رائے سے منظور بھی ہو گئی۔
ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کسی پانچ ستارہ جگہ پر جانا ہمیں راس نہیں آتا، لہذا جم خانہ کا سن کر ہی مرعوبیت سی طاری ہو گئی۔جن صاحبہ کی ممبر شپ تھی وہ دیگر خواتین ساتھیوں کے ساتھ پہلے ہی روانہ ہو گئیں۔ ہم پانچ مرد حضرات ایک نسبتاً غریبانہ سی سواری میں روانہ ہوئے(جم خانہ کے مقابلے میں سوزوکی سوئفٹ غریبانہ سی ہی معلوم ہو رہی تھی، جس کا دروازہ بند تو اندرسے ہوجاتا تھا، لیکن کھولنا باہر سے پڑتا تھا)۔
ہم میں سے کسی کو راستہ معلوم نہ تھا، لیکن ہر کوئی ممکنہ راستے سے متعلق ماہرانہ رائے کا اظہار کر رہا تھا۔ خیر پوچھتے پچھاتے پہنچ ہی گئے۔
مرکزی دروازے پر دربان نے روک لیا۔ نخوت بھرے لہجے میں پوچھا، "کہاں جانا ہے؟”
جواب دیا: ظاہر ہے ہم آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے نہیں آئے، اندر ہی جانا ہے۔
پوچھا، "اندر کہاں؟”
ہم نے اپنی آمد کا مقصد سمجھانے کی کوشش کی، جو اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ اتنی دیر میں گاڑیوں کی قطار لگ چکی تھی۔ دربان نے مزید "تفتیش” کے لیے ہمیں گاڑی سائیڈ پر کرنے کو کہا۔ہمارے درمیان ایک معزز صورت لینڈلارڈ قسم کے صحافی بھی موجود تھے، جو یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ وہ گاڑی سے اترے اور جو سمجھایا وہ دربان کی سمجھ میں آ ہی گیا۔
اس پوچھ تاچھ کے دوران گاڑی چلانے والے صاحب یا تو اچھے خاصے کنفیوز ہو چکے تھے، یا مرعوب۔ سامنے تیر کا نشان بائیں جانب جانے کا اشارہ کررہا تھا، یہ دائیں مڑگئے۔ وہاں موجود محافظ نے روکا اور ڈپٹا "اوئے تینوں نظر نئیں آندا۔”
اندازہ لگائیے، جم خانہ لاہور جانے والے کے ساتھ کس انداز میں گفتگو کی جا رہی تھی۔
تاہم اس ناروا رویے پر محافظ کو برا بھلا کہنے کے بجائے گاڑی میں موجود تمام افراد نے برادران یوسف کا کردار ادا کیا، تیر اور گاڑی چلانے والے صاحب کے متعلق چند نازیبا باتیں کیں اور ڈپٹنے والے شخص کی ہاں میں ہاں ملائی گئی۔
گاڑی پارک کرنے کے بعد ہم وہاں پہنچے جہاں طعام کا انتظام تھا۔ادھر ایک اور حیرت ہماری منتظر تھی۔ معلوم ہوا ایک ممبر شپ پر صرف چار افراد کو کھانا کھلانے کی اجازت ہے۔ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور واپسی کی ٹھانی۔ لیکن جن خاتون کی ممبرشپ تھی، اتفاقاً ان کے عزیز بھی یہاں کھانے کے لیے آرہے تھے۔ لہذا فیصلہ ہوا کہ باقی افراد ان کے کارڈ پر بھگتائے جائیں گے۔
اب مرحلہ آیا کھانا کھانے کا۔ جو داخلی دروازے پر ہوئی، اس "عزت افزائی” کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا۔ویٹرحضرات کے آداب مہمان نواز کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پہلے تو ہمیں گلاس ہی لا کر نہ دیے، اور جب لائے تو وہ کم تھے۔ مہمان خصوصی (جو ہمارے برعکس کوٹ اورٹائی پہنے تھے) نے پلیٹ لانے کوکہا تو پنجابی میں جواب ملا، "او پئی ہے”(وہ پڑی ہے)۔
دو حضرات نے سیون اپ کی بوتل کو دو گلاسوں میں تقسیم کیا۔ویٹر سے درخواست کی گئی اس میں لیموں ڈال لائے۔ وہ سیون اپ سے بھرا گلاس خالی کر کے صرف لیموں نچوڑ لایا۔
کھانے کا مرحلہ طے ہوا تو تصویریں لینے لگے۔ حکم ملا یہاں تصویر نہیں لے سکتے، اٹھ کر نیچے ہال میں آئے تویہاں بھی خاصے درشت لہجے میں تصویریں لینے سے روک دیا گیا۔
ہم حیران ہی رہے کہ تصویریں لینے سے روکنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ لوگ لاکھوں خرچ کرکے جم خانہ لاہور کی ممبر شپ لیتے ہیں، کیا یہاں کے اسٹاف کو مہمان نوازی کے اصول اورآداب کسی نے نہیں سکھائے؟ یا پھر یہ خصوصی شفقت صرف ہمارے لیے ہی تھی؟اور یہ بھی کہ لاکھوں کی ممبر شپ کے باوجود آپ چار سے زیادہ مہمانوں کو کھانا کیوں نہیں کھلا سکتے؟
شکر ہے وہاں سے نکلتے وقت کسی نے میلی آنکھ سے نہین دیکھا۔۔۔ ہاں البتیہ غریب النسل گاڑی کی ون ڈسکرین ضرور دھندلا کر گھورتی رہی۔۔۔ یہ وہ دن تھا جب جم خانے کے کھانے سے بہتر اپنے باورچی خانے کا کھانا لگا۔۔۔
پسند کریںLiked by 1 person
مطلب کہ بندہ گھر سے روٹی کھا کے ہی جائے، ایویں ای جمخانے والے بھی نہ گھسنے دیں اور بندہ گھر سے بھی بھوکا چلا جائے۔ میری گڈی کا دروازہ بھی اندر سے نہیں کھلتا تھا، پھر پتہ چلا کہ بچوں سے بچانے کے لئے چائلڈ لاک لگا ہوتا ہے وہ اگر اپ ڈائون ہو جائے تو دروازہ اندر سے نہیں کھلتا۔
پسند کریںLiked by 1 person
شکر ہے کہ آپ کو لاکھوں روپے کی ممبر شپ میں کھانا مل گیا، حالانکہ یہ پیسے تو لوگ صرف ’’ پینے‘‘ کے لیے دیتے ہیں۔اوپر سے استقبالیہ اور کھانے کی ٹیبل پر اتنی عزت افزائی مفت میں۔۔۔
پسند کریںLiked by 1 person