آئیے آپ کو اپنے ٹی وی چینل کے نیوز روم کی سیر کراتے ہیں۔ جی ہاں، یہ بڑا سا کمرہ، جس میں مختلف افراد مختلف سمتوں میں بھاگتے پھر رہے ہیں، یہی نیوز روم ہے۔
ان میزوں کو آپ خبروں کا آپریشن ٹیبل سمجھ لیں۔ انہی میزوں پر بیمار خبروں کا آپریشن ہوتا ہے، اور تندرست خبروں کو فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔
حیران نہ ہوں، لکڑی کےطویل تختوں کے نیچے لوہے کی ٹانگیں لگا کر اسے میز کا لقب دے دیا گیا ہے۔ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے، پھول کو جس نام سے بھی پکارو، رہتا تو وہ پھول ہی ہے نا۔یہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں بیٹھتے ہیں، اور میز سے اپنا دامن بچاتے رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کئی جگہوں پر کھردری سطح کی رگڑائی نہیں کی گئی۔ کہیں کہیں لوہے کا سرا لکڑی کو چیر کر باہر نکل آیا ہے۔ ان تمام مقامات آہ وفغاں سے اپنے کپڑے اور عزت محفوظ رکھنے کے لیے اسکاچ ٹیپ چپکائی جاتی ہے۔
میزوں کے نیچے کمپیوٹر کے سی پی یو رکھے گئے ہیں، لہذاآپ ٹانگیں سیدھی نہیں رکھ سکتے، قدرے ترچھا ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ سامنے بیٹھا شخص بھی ذرا سی ٹانگیں پھیلائے تو آپ کے کمپیوٹر کی تاریں ہل جاتی ہیں۔ نتیجتاً کبھی مانیٹر اور کبھی سالم کمپیوٹر ہی آف ہو جاتا ہے۔
میزوں کے اوپر کمپیوٹر اور اسباب کے ساتھ ساتھ گرد کی تہہ بھی موجود ہوتی ہے۔ جھاڑ پونچھ جن کی ذمہ داری ہے، وہ ایسی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جو ان کی ذمہ داری نہیں۔لہذا ہر صفائی پسند شخص کام پر آنے کے بعد خودٹشو لے کر اپنے حصے کی میز صاف کرتا ہے۔
صفائی کرنے کے ذمہ داران سے کہہ سن کر انہیں جھاڑ پونچھ کے لیے آمادہ کر بھی لیا جائے تو عجیب سی تخصیص سامنے آجاتی ہے۔ آپ کی میز تو صاف ہو جائے گی، کمپیوٹر بدستور گرد میں اٹا رہے گا۔ پوچھیں تو جواب ملے گا "یہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کا کام ہے۔”
اب جناب آئی ٹی والے سال میں دو بار، اور کبھی کبھار صرف ایک بار کمپیوٹر صاف کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اگر کسی نے بسکٹ کھانے کے بعد اس کا ریپر میز کے نیچے سی پی یو پر رکھ چھوڑا تھا تو وہ سال بھر وہیں پڑا رہے گا۔
ہمارے دفتر کےساتھی بھی کم ظالم نہیں۔ پھینکنے والی چیز ہر جگہ پھینکتے ہیں، سوائے کوڑے دان کے۔آپ دفتر میں آتے ہیں تو استعمال شدہ ٹشوز کا ڈھیر خبردیتا ہے ،کسی زکام زدہ شخص نے ناک سے بہتے سیل رواں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی تھی۔ سوچیے ان ٹشوز کو دیکھنا، اور پھر اٹھا کر کوڑے دان میں پھینکنا کس قدر کراہت آمیز ہوتا ہوگا۔اگر پہلے کی شفٹ میں کسی نے سینڈوچ اڑائے ہیں تو میز پر بکھرے ذرے، اور کی بورڈ پر پھیلی چکنائی اس کی خبر بھی دیتی ہے۔موسمی پھلوں کے چھلکے، سپاری کے دانے، جوس کے خالی ڈبے، ادھ کھائے بسکٹ وغیرہ شفٹ پر موجود افراد کی خوش خوراکی کا سارا فسانہ کہہ دیتے ہیں۔
کچھ ستم ظریف تو ایسے بھی ہیں جوچیونگم چبانے کے بعد اسے میز کے نیچے چپکا دیتے ہیں۔ بعد کی شفٹ میں آنے والے کو جب تک معلوم ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
میزوں کے برعکس دفتر والوں نے کرسیاں تو اچھے معیار کی رکھیں، لیکن وہ بھی ہماری کاہلی کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ کچھ حضرات ان پر زیادہ ہی پھیل کر بیٹھتے(بس چلتا تو لیٹ بھی جاتے)، لہذا وہ کرسیاں آہستہ آہستہ جواب دینے لگیں۔ سات آٹھ سال میں دفتر والوں نے دو مرتبہ مرمت کرائی، دو ہی مرتبہ "کچھ” نئی کرسیاں لائی گئیں، لیکن ابھی تک ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہے۔ دفتر آنے کے بعد میز کی صفائی کے ساتھ ساتھ ایک قابل نشست کرسی بھی تلاش کرنا پڑتی ہے۔ جو اس تلاش میں ناکام رہے، وہ شفٹ کے اختتام تک اچھے خاصے کمر درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس کے تدارک کے لیے کچھ حضرات نے تو اچھی کرسیاں اپنی نشست کے ساتھ باندھ چھوڑی ہیں۔ کچھ نے پکے مارکر سے ان پر نام لکھ دیے ہیں۔
جی اب اجازت چاہوں گا، مجھے معاشرتی رویوں پر ایک رپورٹ تیار کرنی ہے۔ ارے مونگ پھلی کے چھلکے ادھر ہی پھینک دیجیے، اگلی شفٹ والا خود ہٹا لے گا۔