اوریا صاحب ، اس کالم کا کیا مقصد تھا؟

اوریا مقبول جان منفرد کالم لکھتے ہیں۔ جمہوریت کی ہولناکیاں، سرمایہ دارانہ نظام کی چالاکیاں، اور قیامت کی نشانیاں۔۔۔ ان کی تحریر پڑھ کر سب رازوں سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔
لاہور میں ایک ادبی میلہ سجایا گیا۔ اہل لاہورنے اتنی پذیرائی دی کہ تین بڑے بڑے ہال، اور کسی میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔
لیکن اب اوریا صاحب نے اس پر کالم لکھا ہے، جس نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ کالم کا عنوان ہے، سودی معیشت کا کارپوریٹ کلچراور اس کا لٹریری فیسٹیول۔ پڑھ کر ہمیں معلوم ہو اکہ یہ ادبی میلہ بھی سودی معیشت میں جکڑے کارپوریٹ کلچر کی چال تھی، جس کا مقصد ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ ادب پر بھی عالمی اجارہ داری قائم کرنا تھا۔لکھتے ہیں، یہ فیسٹیول ایک عالمی کارپوریٹ معاشرے کی تصویر ہوتے ہیں۔ کارپوریٹ سرمائے کی چکاچوند سے یہ میلہ اب ہر سال لگتا ہے جس کا ماحول پیرس کی کسی کیٹ واک سے مختلف نہیں ہوتا۔(پیرس کی کیٹ واک کا ذکر ثابت کرتا ہے۔۔۔اوریا مقبول کی دیدہ بینا ، یا دیدہ دلیری نے لٹریری فیسٹیول میں آنے والی خواتین کو کس نظر سے دیکھا)
اوریا صاحب کو فیسٹیول میں آنے والے افراد پر بھی اعتراض تھا، کیونکہ وہ بڑی بڑی، چمکدار اور نئے ماڈل کی گاڑیوں میں سوار تھے، انہوں نے ڈیزائنر ملبوسات پہن رکھے تھے، اور اردو میں بات نہیں کرتے تھے۔
انہیں شاید یہ بھی اعتراض تھاکہ پاکستان کا علاقائی ادب اس ادبی میلے کا حصہ نہ تھا۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ "سودی معیشت سے جنم لینے والے کارپوریٹ کلچر کو ایسے ادب کی ضرورت نہیں۔ اسے ایسامرنجان مرنج ماحول اور ایسا ادب چاہیے ہوتا ہے جو عالمی زبان اور تہذیب کی اخلاقیات کا درس دیتا ہو۔”
پوچھتے ہیں، ” کیا کوئی ادارہ پیرس شہر میں انگریزی زبان میں لٹریری فیسٹیول منعقد کرنے کی فضول خرچی کر سکتا ہے یا پھر لندن شہر میں فرانسیسی زبان میں لٹریری فیسٹیول سجانے کی…یہ صرف مجبور معیشتوں اور سودی عالمی بینکاری سے جنم لینے والے مقروض معاشروں میں ہوتا ہے۔ جس قوم کو تباہ کرنا ہو، سب سے پہلے اس کی زبان اس سے چھینی جاتی ہے، پھر اسے جدھر چاہے مرضی ہانک دو، وہ شکایت تک نہیں کرتی۔”
یہ کالم پڑھ کر جہاں بہت آگاہی ہوئی، وہیں کچھ سوالات نے بھی جنم لیا۔
اوریا مقبول صاحب!آپ کو ادبی میلے پر بنیادی اعتراض ہے کیا؟
علاقائی ادب اگر کسی میلے کا حصہ نہ ہو، تو کیااس میں شرکت ہی نہ کی جائے؟
کیا ہمیں عالمی ادب سے بالکل ہی منہ موڑ لینا چاہیے؟
اوریا صاحب! آپ اکثر جان پرکنز کی کتاب "ایک معاشی قاتل کا اعتراف جرم” کا حوالہ دیتے ہیں، اور اس کالم میں بھی دیا۔۔۔عالمی ادب سے منہ موڑ کر تو ہم ایسی کتابیں بھی نہیں پڑھ سکیں گے۔
کیا ہم تب تک کنویں کا مینڈک بن کر عالمی ادب سے کنارہ کش رہیں، جب تک آپ جیسے مہربان ہمارے لیے متبادل کا انتظام نہیں کرلیتے۔ ایسا ادبی متبادل جس میں علاقائی ادب اور پاکستان کی اصل کہانیوں کو آپ کے معیار کے مطابق نمائندگی ملے؟
اگر سودی معیشت ایسا ادبی میلہ منعقد کرا سکتی ہے، تو آپ کو جوابی میلہ کرانے سے کس نے روکا ہے؟
اگر کوئی شخص ادبی میلے میں شرکت کرتا ہے، وہاں آئے افراد سے مکالمہ کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، جواب پاتا ہے، سوچتا ہے، تو اس میں برا کیا ہے؟
آپ کے مطابق کارپوریٹ کلچر اپنے مفادات کے لیے ہمارے مفادات پر ضرب لگاتا ہے، لیکن جس اخبار میں آپ کا کالم چھپتا ہے، جس ٹی وی چینل سے آپ کا پروگرام نشر ہوتا ہے۔ کیا وہاں کارپوریٹ کلچر نہیں؟
کارپوریٹ کلچر غلط ہے، لیکن آپ کے ابلاغ کا ذریعہ بنے، تو پھر کیسے درست ہو سکتا ہے؟

2 thoughts on “اوریا صاحب ، اس کالم کا کیا مقصد تھا؟

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s