ہمارے دفتر کی کرسیاں

شاید آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو، ہمارے دفتر میں کرسی کو رسی کے ساتھ میز سے باندھا جانے لگاہے۔ اور جب سے یہ چلن نکلا ہے، ہمیں کرسی اور کتے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کیوں؟ یہ کہانی آٹھ سال پہلے شروع ہوتی ہے۔
جب دفتر کا ڈول ڈالا گیا، اس وقت نئی کرسیاں منگوائی گئی تھیں۔تب ان کی چھب ڈھب نرالی تھی۔ ہاتھ مضبوط اور پیروں میں روانی تھی۔ پھر زمانہ قیامت کی چال چلتا گیا، اور یہ بے چاریاں اس کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکیں۔
کچھ تو زیادتی کرسیاں استعمال کرنے والوں نے بھی کی۔ یعنی کام کرنے کےلیے بیٹھے تو وہیں پسار لیے۔ کرسی کی کمر نے مزاحمت کی تو زور لگا کراس کی ساخت اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لی۔کرسی کا سانچہ لیٹنے کی راہ میں حائل ہوا، تو اپنی تہذیب کا سانچہ ہی اتار پھینکا۔ اس زور زبردستی سے کئی کرسیوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ کئی بے دست و پا ہوگئیں۔ آرام کرنے والوں کا تو کام بن گیا، لیکن جنہوں نے ان کرسیوں پر بیٹھ کر کام کرنا تھا۔۔۔وہ کسی کام کے نہ رہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

جلد باز صحافت

لاہور میں ایک شخص پر بدفعلی میں معاونت کا الزام لگا۔ مقدمہ درج ہوا، اور ہائی کورٹ میں پیشی پڑی۔
اس خبر کی کوریج کے لیے صحافی بھی موجود تھے۔ ٹیلی وژن کے نیوز روم میں کوئی بھی خبر سب سے پہلے ٹکر کی صورت موصول ہوتی ہے (ٹی وی سکرین کے نیچے آپ خبریں ایک پٹی کی صورت چلتے دیکھتے ہیں، اسے ٹی وی صحافت کی زبان میں ٹکر کہا جاتا ہے۔ صحافی کو کوئی بھی خبر ملے، سب سے پہلے اسے سکرین پر پٹی میں چلایا جاتا ہے)۔
تو بدفعلی کا ملزم لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا، اور ضمانت خارج ہونے پر فرار ہوگیا۔ ٹی وی پر جلد باز صحافیوں نے اس کا ٹکر یوں چلایا
۔۔۔لاہورہائی کورٹ سے بدفعلی کا ملزم فرار ہو گیا۔۔۔
ذراسوچیے، اگر تھوڑے سکون سے جملہ یوں لکھا جاتا۔۔۔بدفعلی کا ملزم لاہور ہائی کورٹ سے فرار
تو عدالت اور صحافت، دونوں کی عزت بچ جاتی
ایک جملے نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا