بی بی سی کی خبر ناقص کیوں؟

خبر میں معلومات جتنی اہم ہوتی ہیں، حوالہ اور موقف بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے۔ مسئلاً پاکستان میں فلاں نیا ٹیکس نافذ کردیا گیا؛ اب جہاں یہ خبر اہم ہے، وہیں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ٹیکس لگانے کا اعلان وزیرخزانہ نے بجٹ اجلاس کے دوران کیا۔
خبر میں عمومی بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مسئلاً تاجر برادری نے ٹیکس مسترد کردیا۔۔۔اس خبر کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ تاجر برادری سے مراد فلاں انجمن ہے، جس کے صدر نے ٹیکس پر اپنا موقف دیا ہے۔
یہاں تک کہ کسی سانحے میں ہلاکتوں کی خبر بھی حوالے کے ساتھ دی جاتی ہے۔ عموماً اسپتال ترجمان یا حکام ہلاکتوں کی جو تعداد بتائیں اسے رپورٹ کیا جاتا ہے۔
کسی تحقیقاتی خبر میں تو حوالے اور موقف کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اگر کوئی سیاستدان کسی دوسرے پر کرپشن کا الزام لگاتا ہے، تو ملزم کا موقف لیے بغیر خبر نہیں دی جا سکتی (نہیں دینی چاہیے)۔ جو اچھا رپورٹر ہے وہ الزام اور جوابی الزام رپورٹ کرنے کے بجائے خود سے بھی تحقیق کرتا ہےتاکہ الزام کی صحت کو جانچا جا سکے۔
یہ تو وہ چند قوائد و ضوابط ہیں جس پر پاکستانی نیوز روم کسی حد تک عمل کرتے ہیں۔ اگر بات برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ہو، تو اس سے صحافتی اقدار کی پاسداری کی توقع کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
مقصد اس تمہید کا یہ ہے، کہ بی بی سی نے ایک خبر لگائی۔۔۔ایم کیو ایم کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی۔
ایسی سرخی کا مطلب ہوتا ہے، بی بی سی نے پاکستانی سیاسی جماعت کو بھارتی مدد کا کھوج لگایا۔  لیکن تفصیل پڑھیں تو معلوم ہو گا یہ الزام ایک نامعلوم بیان کے سوا کچھ نہیں۔
اس متن پر یہ سرخی لگائی جا سکتی تھی۔۔۔ ایم کیو ایم پر بھارتی حکومت سے مالی مدد کا الزام۔
خبر کا متن پڑھیں تو مزید حیرت ہو گی، کہ بی بی سی کا ذریعہ کس قدر گمنا م ہے۔
ملاحظہ کریں۔۔۔بی بی سی کو مقتدر پاکستانی ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر حکام نے برطانوی حکام کو بتایا ہے کہ جماعت کو بھارتی حکومت سے مالی مدد ملتی رہی تھی۔
یہاں بی بی سی کسی حد تک تحقیقات کا تکلف کر لیتا، کم از کم ان برطانوی حکام سے پوچھ ہی لیتا کہ الزام میں کوئی صداقت بھی ہے یا نہیں۔
پھر لکھا ہے
ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکنوں نے گذشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں میں قائم کیمپوں سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت بھی حاصل کی۔
آگے چل کر یہی پاکستانی اہلکار بی بی سی کو بتاتا ہے 2006_2005 سے قبل ایم کیو ایم کے چند درمیانی درجے کے ارکان کو تربیت دی گئی جبکہ حالیہ برسوں میں جماعت کے مزید جونیئر ارکان کو تربیت دی گئی ہے۔
ان چند جملوں کےعلاوہ باقی ساری خبر سیاق و سباق ہے۔ رپورٹر نے کسی کا موقف لیا ہے تو وہ عمران خان ہے، جن کے بیان کی سیاسی اہمیت تو ہو سکتی ہے، تحقیقاتی اہمیت نہیں ہو سکتی۔
ہاں اسی معاملے پر ایس ایس پی راؤ انوار کی پریس کانفرنس کا حوالہ ضرور دیاگیا، جو ظاہر ہے اس وقت تک الزام ہے جب تک ثابت نہ ہو جائے۔
کہنے کا مقصد یہ کہ بی بی سی کی رپورٹ میں نئی بات کچھ بھی نہیں۔ ساری خبر کسی نامعلوم پاکستانی اہلکار نے دی۔
کم ازکم بی بی سی سے یہ توقع ضرور تھی کہ وہ خبر رپورٹ کرنے کے ضابطے پورے کر لیتا۔اس نامعلوم پاکستانی اہلکار سے بھارتی مدد کے کچھ ثبوت ہی حاصل کر لیے جاتے۔ یا تربیت حاصل کرنے والے متحدہ ارکان کی فہرست حاصل کر لی جاتی۔
مقتدر پاکستانی ذرائع۔۔۔اور ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار بی بی سی کی اس خبر کو خاصا معنی خیز بنا رہے ہیں۔

One thought on “بی بی سی کی خبر ناقص کیوں؟

  1. صحافت کے میدان میں یہ طور طریقہ اپنی جگہ غلط ہے ، عام زندگی میں بھی چھانٹ پرکھ کے بغیر بات کرنا گھٹیا حرکت ہے، خیر ایسے چینل کامیاب نہیں ہوتے ۔۔۔کچھ ہی عرصے میں دیکھنے والے بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    Liked by 1 person

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s