"اس” کلرک سے ایک سوال

کلرک نے کاغذات کو ایک نظر دیکھا، اور پھر انکار میں سر ہلا دیا، "مشکل ہے جی! کام نہیں ہو سکتا۔”
"لیکن یونیورسٹی کو داخلہ فیس تو بروقت ادا کر دی گئی تھی، پھر رجسٹریشن کیوں نہیں ہو سکتی؟”۔ ہمارے سوال پر کلرک نے اگلے روز دوبارہ آنے کا کہہ دیا۔
گاؤں سے ایک جاننے والا ایم اے میں داخلہ لینا چاہتا تھا۔ داخلہ فیس وقت پر جمع کرائی۔ بی اے علامہ اقبال یونیورسٹی سے کیا تھا۔ کسی دوسری جامعہ میں داخلے کےلیے علامہ اقبال یونیورسٹی کو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔یہ سرٹی فیکیٹ جاری کرنے میں تاخیر ہوگئی۔  اب وہ نوجوان جاننا چاہتا تھا یہ تاخیر ایم اے میں داخلے کے لیے رکاوٹ تو نہ بنے گی۔
ہماری لاہور میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ معلوم کرنے کا کام ہمیں سونپا گیا۔یونیورسٹی کی رجسٹریشن برانچ گئے، داخلے پر دائیں ہاتھ ہی کمرے میں ایک کلرک بیٹھا تھا۔ سوچا اسی سے پوچھتے ہیں،کسی متعلقہ شخص کے پاس بھیج دے گا۔
کلرک نے ہماری بات سنی، ہمارے ہاتھ سے کاغذات لے کر الٹا پلٹا، کچھ سوچا اور انکار کردیا۔جب پوچھا کہ فیس وقت پر ادا کر دی گئی، تورجسٹریشن میں کیا قباحت ہے، اس نے  اگلے روز آنے کا کہہ دیا۔
ہماری عادت ہے، قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں، کہیں اپنے صحافی ہونے کا نہیں بتاتے، لہذا سر جھکا کر لوٹ آئے۔
اگلے روز پھر انکار تھا، لیکن اس سوال کا جواب نہ تھاکہ فیس تو وقت پر دی گئی، پھر رجسٹریشن میں مسئلہ کیا ہے۔ کلرک بادشاہ نے بے نیازی سے ایک دن بعد پھر آنےکا کہہ دیا۔
اگلے دن اس نے کہا،” آپ یہ کاغذات میرے پاس چھوڑ جائیے، میں کوشش کرتا ہوں”۔ہمیں  لگا شاید یہ تاخیری حربے کچھ اینٹھنے کا بہانہ ہے، اشاروں کنایوں میں اس پر بھی آمادگی ظاہر کردی، لیکن وہ کئی دن ہمارے چکر لگواتا رہا۔
روز چکر لگا لگا کر ہم عاجز آگئے۔گھر سے طویل فاصلہ طے کے یونیورسٹی آتے، کلرک بادشاہ کا انکار سنتے، پھر دفتر کو روانہ ہوتے۔ دفتر کا حرج الگ، اور یونیورسٹی آنے میں وقت ، پیٹرول اور توانائی کا ضیاع الگ۔ جی چاہتا کلرک ایک بار واضح انکار ہی کر دے۔
ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے کچھ دن بعد کلرک نے حتمی انکار کر دیا۔ اس وقت تک ہمیں اس معاملے سے چڑ ہو چکی تھی۔ بھئی واجبات وقت پر ادا کیے، این او سی جاری ہونے میں تاخیر ہوئی، اب یا تو رجسٹریشن ہو سکتی ہے یانہیں ہو سکتی، اس معمولی سے سوال کے لیے ہمارے اتنے چکر کاہے کو لگوائے گئے۔ حتمی انکار کے بعد ہم رجسٹرار صاحب کے دفتر چلے گئے۔ انہوں نے سارا معاملہ سنا، کاغذ پر لکھا ، "چونکہ فیس وقت پر ادا کی گئی، لہذا رجسٹریشن کی جائے،” اور ہمیں ایک کمرے میں بھیج دیا۔
یہاں پہنچے تو دیکھا کہ رجسٹریشن کارڈ جاری کیے جا رہے ہیں، ہم نے بھی رجسٹرار صاحب کا رقعہ آگے بڑھا دیا۔رقعہ وصول کرنے والے صاحب نے حیرت سے ہمیں دیکھا اورکہا،” اس کے لیے رجسٹرار صاحب کے رقعے کی کیا ضرورت تھی، آپ ویسے ہی یہاں آتے ، کاغذات جمع کراتے، تو رجسٹریشن کارڈ جاری کر دیا جاتا۔” (ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی کئی اور افراد آئے، کاغذات جمع کرائے اور رجسٹریشن کارڈ بنوائے)
ہم نے بتایا کہ فلاں کمرے میں بیٹھا کلرک تو ہمیں انکار کر چکا۔ وہ صاحب کہنے لگے، آپ اس کے پاس کیوں چلے گئے، اس کا تو رجسٹریشن سے تعلق ہی نہیں ہے۔
اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن ہم اب بھی سوچتے ہیں کہ ہمارے اتنے دن برباد کرنے والے اس کلرک کو کچھ احساس بھی تھا کہ یوں روز روز دفاتر کے چکر لگانا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ صرف دو کمرے چھوڑ کر وہ کمرہ تھا جہاں رجسٹریشن کارڈ بنائے جا رہے تھے، اس نے درست رہنمائی کیوں نہ کی؟ یہ کیا رویہ ہے جو دوسروں کو تکلیف دینے پر مجبور کرتا ہے؟

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s