وہ عورت تو کراچی میں رو رہی ہے، پھر میرا منظر کیوں دھندلا گیا ہے۔ حکومت نے تمام اداروں کو آئین کے دائرے میں رہنے کی تلقین کر دی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر یہ خبر چنگھاڑ رہی ہے، لیکن میرے گردوپیش میں ایک نمی سی در آئی ہے۔ میں خبر کے کرارے پن سے لطف نہیں اٹھا پا رہا۔
عدالت کا فیصلہ آیا، ریلوے کی زمین پر بنے فلیٹ غیر قانونی ہیں، چوبیس گھنٹے میں خالی کرا لیے جائیں۔ معاملہ سر تا پا خبریت تھا، فوراً رپورٹر اور کیمرے دوڑائے۔ عدالتی حکم کے بعد کیا کارروائی کی جاتی ہے، یہ دیکھنے اور رپورٹ کرنے کے لیے سب نے کمر کس لی۔
وہاں موجود بہت سے لوگوں کی باتیں نشر کیں، کہیں افسوس تھا، کہیں شکایت تھی، غصہ تھا، جھنجھلاہٹ بھی تھی۔۔۔ لیکن اس بوڑھی عورت کے گریے میں کچھ اور بھی تھا۔ عمر بھر کی کمائی لٹ جانے کا صدمہ، سر کی چھت چھن جانے کا ملال، ناامیدی، خوف، فریاد۔
وہ گھر کے کاغذات ہاتھ میں تھامے روتی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ ان کاغذات میں لکھا قانون تو اسے فلیٹ کا مالک بتاتا ہے، پھر عدالت کا قانون اسے مالک کیوں نہیں سمجھتا۔ ایک قانون کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اپنے گرد چاردیواری کھڑی کی تھی، پھر یہ دوسرے قانون کا ہاتھ اس کے سر سے چادر کیوں اتارتا ہے؟
فوج کے سپہ سالار کہتے ہیں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو کامیاب بنانا ہے تو برابر کے حکومتی اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کہتی ہے ہم نے امن و امان بہتر کر دیا، ادارے آئین کے دائرے میں رہیں۔ پھر یہ امن و امان بہتر بنانے والے حکمران لاہور میں اپنے گھر کو محفوظ بنانے کے لیے چھتیس کروڑ روپے کی لاگت سے آہنی دیوار تعمیر کرتے ہیں، اور اس جگہ سے ایک ہزار پچیس کلومیٹر دور ایک بوڑھی خاتون کے گرد چھتیس لاکھ روپے کی چاردیواری بھی چھن جاتی ہے۔
کیا ریلوے کی زمین پر ناجائز فلیٹ راتوں رات تعمیر کر دیے گئے، اور فروخت بھی کر دیے گئے؟ غیرقانونی تعمیر اور فروخت رکوانا کس کی ذمہ داری تھی؟
میں اس خاتون کی بے بسی کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو عزیز دوست عمربلال کا جملہ یاد آگیا۔۔۔اس نے آج ہی شام تو کہا تھا، آپ دہشت گردی کے خلاف جتنے مرضی آپریشن کر لیں، آرمی ایکٹ میں جتنی مرضی ترامیم کر لیں، جب تک معاشرے کو انصاف نہیں دیں گے، امن نہیں آئے گا۔