لاہور پریس کلب کے عہدے داروں کے لیے انتخابات مال روڈ والے الحمرا میں ہونا طے پائے اور سارے ملک کو خبر بتانے والے خود ہی خبر بن بیٹھے۔
الحمرا ہال کے باہر بہت سی موٹرسائیکلوں اور خاصی تعداد میں گاڑیوں کا اژدھام ہے۔ اندر جائیں تو بھی خلقت کی خلقت امڈی پڑی ہے۔
بھانت بھانت کا صحافی موجود۔ کوئی سینوں پر پسندیدہ امیدوار کی تصویر چپکائے ہے، کوئی ہاتھوں میں پیمفلٹ تھامے ہے۔ ایک کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ ڈالنے کی حکم نما درخواست کر رہاہے، دوسرا یقین دلا رہا ہے کہ ووٹ فلاں کو ہی ڈالے گا۔
ذرا آگے جائیں تو عجیب نظارہ ہے، کہیں دھاندلی کا شور، کہیں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی آوازیں، کہیں پولنگ جاری رکھنے کے نعرے، کہیں جعلی ووٹر پکڑنے کے دعوے۔ غرض ایک ہڑبونگ اور بدنظمی ہے۔
اے لو، قلم کا زور لگانے والے زور بازو بھی آزمانے لگے۔ الحمرا کی ادبی بیٹھک کا دروازہ ہی اکھاڑ دیا۔ جن لوگوں نے وہ دیو قامت دروازہ دیکھ رکھا ہے، انہیں انداز ہو گیا ہو گا کہ ایسی چیزیں معمولی دھکوں سے نہیں ٹوٹتیں۔ کاش ایسے زور آور صحافی اگلے وقتوں کے بادشاہوں کو نصیب ہوتے، قلعوں کے مرکزی دروازے ایک ہی ہلے میں توڑ دیا کرتے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
Monthly Archives: دسمبر 2015
میری سادہ والدہ
موبائل تھرتھرایا، میں عموماً گھنٹی بند ہی رکھتا ہوں۔ اسکرین پر پھپھو کا نمبر جگمگا رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا یہ کال والدہ کے لیے ہے، اس لیے اٹینڈ کیے بغیر ہی موبائل ان کی طرف بڑھا دیا۔
والد صاحب نوکری کے سلسلے میں کئی شہروں میں تعینات رہے، والدہ بھی ان کے ہمراہ رہیں، لیکن رہیں سادہ اور معصوم۔
اب والدہ تھرتھراتے موبائل کو پکڑے غور سے دیکھ رہی ہیں، کال سننے والا بٹن نہیں دبا رہیں۔ میں نے پوچھا، امی جان اٹینڈ کیوں نہیں کر رہیں؟
جواب آیا، "بیٹا ابھی تو یہ موبائل زور ہی لگا رہا ہے۔”
تو یہ ہیں ہماری امی جان۔
شادی کی سالگرہ کو دوسرا سال ہوا۔ صبح ہی والدہ صاحبہ کی کال آگئی۔ کہنے لگیں، بیٹے آج آپ کی شادی کی سالگرہ ہے، "ہیپی برتھ ڈے۔”
اللہ سب کی امیوں کو صحت مند اور خوش و خرم رکھے۔
ہاسٹل کے ایگ فرائیڈ رائس
وہ بدھ کی ایک سرد شام تھی جب مجھے 19 نمبر ہاسٹل میں رہنے والے دوستوں کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔
پنجاب یونیورسٹی کے 17 نمبر ہاسٹل میں بدھ کے روز ایگ فرائید رائس بنائے جاتے، جو دیگر ہاسٹلز کے طلبہ میں بھی بہت مقبول اور مرغوب تھے۔
خوش قسمتی سے ہمارا قیام بھی 17 نمبر ہاسٹل میں تھا۔ کھانا تو عموماً مغرب کی نماز کے بعد شروع کیا جاتا، لیکن ہم اور ہاسٹل کے دیگر مکین سر شام ہی میس کے گرد چکر لگانے لگتے۔
میس کے مرکزی دروازے پر جلتی لال بتی "کھانا کھلنے” کا اعلان ہوتا۔ لال بتی جل رہی ہے تو آپ میس جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ لیکن بدھ کے روز بتی جلنے کا انتظار بھی دوبھر ہو جاتا۔ اسی لیے ہاسٹل کے لڑکے سورج ڈھلتے ہی میس کے دروازے کے آگے کھڑے ہو جاتے۔ اچھا خاصا جمگٹھا لگ جاتا۔ دیگر افراد کا برآمدے سے گزرنا بھی محال ہو جاتا۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
علی کا کیا بنے گا؟
لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں علی اور میں ساتھ ساتھ چلتے تھے، لیکن ساتھ نہیں تھے۔ وہ اپنے والد صاحب کو دفنانے آیا تھا، اور میں فقط اسے دلاسہ دینے۔ دینے کو میرے پاس اور کچھ تھا بھی کیا؟
عموماً میں ہی علی کو فون کیا کرتا، اتوار کی صبح اس کا فون آیا تو میں نیند میں تھا۔ سولہ برس قبل بھی ایسے ہی اچانک اس کا فون آیا تھا، "یار مجھے شہر سے باہر جانا پڑا ہے، کل کے ڈرامے میں حصہ نہیں لے سکوں گا۔”
کالج کے سالانہ ڈرامے میں وہ شہزادہ سلیم کا کردار ادا کر رہا تھا۔ "میں اتنی جلدی کوئی نیا اداکار کہاں سے ڈھونڈوں گا، وہ ڈائیلاگ کیسے یاد کرے گا؟” میں غصے میں بولتا جا رہا تھا کہ مجھے علی کے ہنسنے کی آواز آئی، تب مجھے علم ہوا تھا کہ سالانہ ڈرامے سے ایک دن پہلے ہی علی نے میرے ساتھ ڈرامہ کر دیا ہے۔
اب بھی میں نے مسکراتے ہوئے ہی فون سنا تھا، "یار کل تمہارے چینل پر کراچی میں ایک ریٹائرڈ میجر کے قتل کی خبر چلی تھی نا، وہ میرے والد صاحب تھے۔ کسی نے انہیں گولی مار دی، ڈیڈ باڈی لاہور لے آئے ہیں۔”
میں قبرستان میں خالی خالی سا کھڑا تھا۔ قبر میں پڑنے والی مٹی علی کے کندھوں پر پہاڑ بنتی جا رہی تھی۔ میرا جی چاہ رہا تھا یہ بھی سولہ برس قبل کی طرح مذاق ہی ہو، ابھی علی ہنسنے لگے اور کہے، دیکھو کیسا بے وقوف بنایا۔
ہر وقت ہنسانے والے علی نے مجھ سے گلے لگ کر پوچھا تھا، "سب ختم ہو گیا یار، اب کیا بنے گا؟”
اس کے بعد علی کا گلا رندھ گیا تھا اور میری آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔ میں آج بھی علی کے سوال کا جواب سوچ رہا ہوں، آپ کے ذہن میں آئے تو بتائیے گا۔
اسلامی فال نامہ
ثقافتی میلے میں ایک ٹھیا قسمت کا حال بتانے والے کا بھی تھا۔ تین طوطے، دو پنچرے سے باہر، ایک پابند سلاسل۔ اسٹیل کے چھوٹے سے پیالے میں ابلے ہوئے مکئی کے دانے، ایک چھوٹی سی سبز مرچ جسے کسی طوطے نے ہی تھوڑا سا کترا تھا۔
قسمت کا حال بتانے والے طوطے مکئی کھانے میں مگن اور اپنی قسمت پر خوش نظر آتے تھے۔ اسی لیے پنجرے سے باہر ہونے کے باوجود اڑان بھرنے سے گریزاں تھے۔
اس معمولی سے انتظام کی تشہیر نسبتاً غیر معمولی تھی۔ جلی الفاظ میں لکھا تھا "طوطے کے حیرت انگیز کمالات دیکھیں، اپنی قسمت آزمائیں۔ ”
بھئی ہم نے قسمت آزمانی ہے یا معلوم کرنی ہے؟ اور قسمت ہماری ہے تو کمال طوطا کیا دکھائے گا؟ کسی حد تک شاعری کا بھی مظاہرہ، "میاں مٹھو ایسی فال نکال، کہ ہر پاکستانی ہو جائے خوش حال۔”
لو جی میاں مٹھو کی فال سے ہی ہم نے خوش حال ہونا ہے تو تجربہ کرنے میں حرج نہیں۔ ساتھ ہی تسلی کے لفظ، "فال دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، بڑا مزا آئے گا۔”
مزا آنے کی بات ہمیں زیادہ بھلی معلوم ہوئی، کوئی ذہنی اڑچن تھی بھی تو اس جملے کے بعد دور ہو گئی، "بزرگان دین کا مرتب کردہ اسلامی فال نامہ”
اسلامی بینکاری اور اسلامی شہد کے بعد فال نامے بھی اسلامی ہو گئے۔۔۔
ہم نے تیس روپے فال نکالنے والے کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ طوطے کو ہماری قسمت بتانے کا حکم ہوا۔ سفید لفافے قطار میں پڑے تھے۔ شان سے چلتا ہوا طوطا ایک جگہ رکا، کچھ سوچا اور لفافہ نکال دیا۔
ہم نے پوچھا، کیوں بھئی طوطے، کیا کہتی ہے ہماری قسمت؟
طوطے نے جواب دیا۔ "ٹیں”
بسکٹ، پڑوسن، اور اوون
گھر میں اوون تو آ گیا تھا، لیکن استعمال سے واقفیت نہ تھی۔ کون سے عناصر ملیں تو کیک بنتا ہے، اور کس آنچ پر دہکایا جائے تو نئی شان اور آن والا پیزا تیار ہوگا؟ ان تمام سوالوں کے جواب کے لیے امی جان نے آس پڑوس کی سہیلیوں سے رابطہ کیا۔
اب روز کا معمول ہوگیا، پہلے ترکیب پوچھی جاتی، پھر اجزاء منگوائے جاتے، پکوانے کا مرحلہ متعلقہ سہیلی کی نگرانی میں طے پاتا۔ امی جان سب ڈائری میں درج کرتی جاتیں تاکہ سند رہیں اور آئندہ بھی بوقت پکوائی کام آئیں۔
ہم اسکول سے واپس آتے تو گھر مہک رہا ہوتا، امی کی کوئی نہ کوئی سہیلی موجود ہوتیں، اوون برآمدے کے بیچوں بیچ دھرا ہوتا۔ اس میں انواع و اقسام کے ملغوبے رکھے جاتے، اور اشتہا انگیز خوراک بن کر باہر نکلتے۔ روز شام کی چائے کے ساتھ کیک اڑایا جاتا، کچھ نمکین کھانے پر طبیعت مائل ہوتی تو یہی برقی بھٹی مرغا بھی روسٹ کر دیتی۔
اس روزبھی ایساہی منظر تھا، کو پڑھنا جاری رکھیں
کثرت سےبولےجانےوالے20جملے
یہ ملک کے خلاف سازش ہے
یہ اسلام کے خلاف سازش ہے
گرم چلے گا یا ٹھنڈا
اور سناؤ کیا حال ہے
بھائی جان اسٹیند اوپر کر لیں
باجی ڈوپٹہ اوپر کر لیں
بہت اچھا سوٹ ہے، کتنے کا لیا ہے؟
او جلدی کر یار
میں بس دو منٹ میں پہنچ رہا ہوں
بس پندرہ منٹ ہی تو لیٹ ہوا ہوں
کیا کریں یار، ٹائم ہی نہیں ملتا
چائے بنا لوں پھر کام شروع کرتا ہوں
فلانا تمہارے بارے میں یہ کہہ رہا تھا
بس کرو، میرا منہ نہ کھلواؤ
تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو
پہنچ کے مس کال دے دینا
یار چارجر تو دینا
تمہارا موبائل چارج ہو گیا ہے تو میرا لگا دو
وہ سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو
میں نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب وہ اسکوٹر چلاتا تھا
شادی سےپہلےلکھاگیاایک مضمون
اچھی خاصی گزر رہی تھی، کہ ہم شادی کی عمر کو آن پہنچے۔ ہم تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ کوئی بڑا کام کریں گے، شادی جیسے فروعی معاملات میں نہیں الجھیں گے،ویسے بھی کسی شخص کا عمر بھر کا ساتھ پاؤں میں پڑی زنجیر کے مترادف ہے۔ کوئی اونچی منزل حاصل کرنے کے لیے ذہنی یک سوئی کی ضرورت ہوتی ہے، جو بیوی کے ہوتے کم از کم نہیں ہو سکتی۔
جب جب ہمارے دوستوں کے موبائل پر اس نوعیت کا پیغام آتا ہے ’’گھر آتے ہوئے دہی لیتے آنا!‘‘ توہم ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کبھی کبھی استہزائیہ سا قہقہہ بھی نکل جاتا ہے، جس پر دوست ناک بھوں چڑھاتے ہیں، ہمیں حسرت سے اور خوں آشام نظروں سے دیکھتے ہیں، دانت بھی پیستے ہیں ،جب کچھ بن نہیں پڑتا تو دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہیں ’’ کوئی بات نہیں بچوُّ! تم پر بھی یہ وقت آئے گا ہی۔‘‘ کو پڑھنا جاری رکھیں