شادی سےپہلےلکھاگیاایک مضمون

اچھی خاصی گزر رہی تھی، کہ ہم شادی کی عمر کو آن پہنچے۔ ہم تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ کوئی بڑا کام کریں گے، شادی جیسے فروعی معاملات میں نہیں الجھیں گے،ویسے بھی کسی شخص کا عمر بھر کا ساتھ پاؤں میں پڑی زنجیر کے مترادف ہے۔ کوئی اونچی منزل حاصل کرنے کے لیے ذہنی یک سوئی کی ضرورت ہوتی ہے، جو بیوی کے ہوتے کم از کم نہیں ہو سکتی۔
جب جب ہمارے دوستوں کے موبائل پر اس نوعیت کا پیغام آتا ہے ’’گھر آتے ہوئے دہی لیتے آنا!‘‘ توہم ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ کبھی کبھی استہزائیہ سا قہقہہ بھی نکل جاتا ہے، جس پر دوست ناک بھوں چڑھاتے ہیں، ہمیں حسرت سے اور خوں آشام نظروں سے دیکھتے ہیں، دانت بھی پیستے ہیں ،جب کچھ بن نہیں پڑتا تو دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہیں ’’ کوئی بات نہیں بچوُّ! تم پر بھی یہ وقت آئے گا ہی۔‘‘
ایک دوست جب ملتے ہیں، کہتے ہیں ’’بھئی آپ کی شادی کے چاول کھانے کی حسرت ہے۔‘‘ ہم بہتیرا کہتے رہیں شادی کے چاول چھوڑیے، ابھی کسی اچھے سے ہوٹل چلتے ہیں اور چاول کھائے لیتے ہیں، لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایک ہی گردان الاپتے رہتے ہیں۔ایک اور دوست ہمیں ہر دوسرے روز ایک ڈیڈ لائن دے دیتے ہیں کہ اس کے بعد ہم انہیں غیرشادی شدہ نظرنہ آئیں۔ایک بٹ صاحب دوستی کے پردے میں کھوجنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کہیں ہم میں کوئی تکنیکی خامی تو نہیں۔
جب ہم شادی کی انسپائریشن لینے کے لیے اپنے شادی شدہ دوستوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر کوئی بدحال ہی نظر آتا ہے۔ جب ملتا ہے اخراجات کا رونا روتا ہے، بیوی کی شکایتیں کرتا ہے،اسکول کی بڑھتی فیسوں اور بچوں کے حوائج ضروریہ سے متعلق اشیاء کی گرانی کا فسانہ کہتا ہے۔
جب سنتے ہیں کہ ایک درمیانے درجے کے اسکول میں نرسری سے بھی نچلے درجے کی کلاسوں میں بچے کی فیس پانچ ہزار روپیہ ماہانہ ہے تو اوسان دیر تک خطا رہتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، جب موصوف رات گئے راگ الاپتے تو ہم ہڑبڑا کر نیند سے اٹھ بیٹھتے اور دیر تک شادی سے توبہ کرتے۔
ہمارے کچھ دوست اپنے والدین ہونے کی فضیلت بیان کرتے رہتے ہیں۔ ایک جملہ یکساں ہوتا ہے، ’’جب دفتر سے گھر پہنچتا ہوں تو چھوٹو کو دیکھتے ہی ساری تھکن اتر جاتی ہے۔‘‘ لیکن انہی دوستوں کو ہم نے مختلف تقریبات میں بچوں کے ہاتھوں ہراساں پایا۔
ایسے میں وہ ہمیں دیکھتے ہی اپنے بچے ہمیں تھما دیتے ہیں اور راحت کے کچھ پل چراتے ہیں۔ ہمیں بھی بچے پسند ہیں لیکن یہ پسند صرف پندرہ منٹ تک محدود رہتی ہے۔ جلد ہی وہ بچے اپنے والدین کی طرف واپس جانے کی ضد کررہے ہوتے ہیں اور والدین دامن چھڑاتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں ’’یہ بڑے اچھے چاچو ہیں، یہ تمہیں باہر لے کر جائیں گے‘‘ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً تائید میں سر ہلانا پڑتا ہے۔
اپنی تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں، اور اپنے عزیزواقارب میں ہمیں جن خواتین سے واسطہ رہا،یااپنے شادی شدہ دوستوں کے توسط سے خواتین کے بارے میں جو باتیں سنیں، ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کرنے میں ناکام ہی رہے۔ایک دوست کی اہلیہ اتنی سی بات پر مہینا بھر روٹھی رہیں کہ ہمارے دوست کو ٹریفک کے رش کی وجہ سے گھر آنے میں پندرہ منٹ کی تاخیر ہو گئی تھی۔
ایک دوست کی اہلیہ نے ان سے چھٹی لے کر میکے چلنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن دفتر سے چھٹی نہ ملی، تو وہ موصوفہ کتنے ہی دن منہ سجائے بیٹھی رہیں۔اور شک کرنا تو ان خواتین کی جیسے گھٹی میں پڑا ہے۔ خوش گمانی چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ شوہر پرفیوم لگا کر دفتر جا رہا ہے تو یقینا کوئی چکر ہو گا، واپس آنے کا معمول گڑبڑ ہوا تو یقینا کسی عشوہ طراز کے گیسوؤں میں الجھا ہو گا، نئی شرٹ پہنی ہے تو کسی کو امپریس کرنے کا ارادہ ہو گا۔۔۔
ایک صاحب کی اپنی اہلیہ سے تادیر بحث چلتی رہی، دونوں جانب سے کف اڑتے رہے، برتن چلتے رہے، آخر صاحب نے کہا ’’ہم تو وہ کہہ ہی نہیں رہے جس پر آپ برہم ہو رہی ہیں۔‘‘ جواب آیا، ’’لیکن آپ کا مطلب تو وہی ہے نا۔‘‘
ہمیں توہول اٹھتے رہتے ہیں کہ شریک حیات مزاجوں والی نکلیں تو ہمارا کیا بنے گا۔ اور اگر ہتھ چھٹ بھی واقع ہوئیں، پھر تو ہمارے ولیمے کے چاول کھانے کی خواہش رکھنے والے دوست فاتحہ کے چاول بھی کھائیں گے۔
چلیں جی، ہماری جان گئی اور ان کی خوراک ٹھہری۔۔۔
تو ہم اس مضمون کے ذریعے اپنے تمام بہی خواہوں کو عرض کیے دیتے ہیں، کہ ہم اپنی موجودہ زندگی سے ازحد خوش ہیں۔ معمولات احسن انداز میں چل رہے ہیں، گھر میں مطلوبہ خاموشی میسر ہے جو ہمیں بہت عزیز ہے، جب جی چاہتا ہے موٹرسائیکل کو کک مارتے ہیں اور کہیں بھی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
’’کہاں جا رہے ہو، واپس کب آؤ گے، مجھے بھی ساتھ لے چلو، مجھے امی کے گھر ڈراپ کر دینا، مجھے باہر کھانا کھلانے لے چلو،آج کل تم کچھ زیادہ ہی باہر نہیں جانے لگے، کون سی ماں سے ملنے جا رہے ہو‘‘ قسم کے سوالات اور فرمائشیں ہم سے کوئی نہیں کرتا۔ بھئی اگر شادی کے بعد یہ حال ہونا ہے تو ہم کہیں بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی مرضی کا کھاتے ہیں، اپنی مرضی کے وقت پر سوتے ہیں، اور بستر سے اپنی مرضی کی سائیڈ سے اترتے ہیں۔
لہذا!!! کیوں کراتے ہو میری شادی؟
پس تحریر: یہ مضمون ہم نے شادی سے پہلے لکھا تھا،جون2013کواردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا، اور جولائی میں ہماری بات پکی ہو گئی۔

9 thoughts on “شادی سےپہلےلکھاگیاایک مضمون

  1. بہت اعلیٰ عمیرمحمودآپ کے ہاتھ میں آکر قلم کی نوک کوصابن لگ جاتاہے یہ ایسے کھسکتا جاتا ہے جیسے شادی سے پہلے کنوارے کے ہاتھ سے کھستکاہے۔۔۔ آپ کی تحریرگویا پکی ہوئی گندم کی طرح ہے درانتی چلتی جاتی ہے اور تپتی دوپہرمیں گندم کے سوکھے تنے کٹتے چلے جاتے ہیں

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں