ثقافتی میلے میں ایک ٹھیا قسمت کا حال بتانے والے کا بھی تھا۔ تین طوطے، دو پنچرے سے باہر، ایک پابند سلاسل۔ اسٹیل کے چھوٹے سے پیالے میں ابلے ہوئے مکئی کے دانے، ایک چھوٹی سی سبز مرچ جسے کسی طوطے نے ہی تھوڑا سا کترا تھا۔
قسمت کا حال بتانے والے طوطے مکئی کھانے میں مگن اور اپنی قسمت پر خوش نظر آتے تھے۔ اسی لیے پنجرے سے باہر ہونے کے باوجود اڑان بھرنے سے گریزاں تھے۔
اس معمولی سے انتظام کی تشہیر نسبتاً غیر معمولی تھی۔ جلی الفاظ میں لکھا تھا "طوطے کے حیرت انگیز کمالات دیکھیں، اپنی قسمت آزمائیں۔ ”
بھئی ہم نے قسمت آزمانی ہے یا معلوم کرنی ہے؟ اور قسمت ہماری ہے تو کمال طوطا کیا دکھائے گا؟ کسی حد تک شاعری کا بھی مظاہرہ، "میاں مٹھو ایسی فال نکال، کہ ہر پاکستانی ہو جائے خوش حال۔”
لو جی میاں مٹھو کی فال سے ہی ہم نے خوش حال ہونا ہے تو تجربہ کرنے میں حرج نہیں۔ ساتھ ہی تسلی کے لفظ، "فال دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، بڑا مزا آئے گا۔”
مزا آنے کی بات ہمیں زیادہ بھلی معلوم ہوئی، کوئی ذہنی اڑچن تھی بھی تو اس جملے کے بعد دور ہو گئی، "بزرگان دین کا مرتب کردہ اسلامی فال نامہ”
اسلامی بینکاری اور اسلامی شہد کے بعد فال نامے بھی اسلامی ہو گئے۔۔۔
ہم نے تیس روپے فال نکالنے والے کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ طوطے کو ہماری قسمت بتانے کا حکم ہوا۔ سفید لفافے قطار میں پڑے تھے۔ شان سے چلتا ہوا طوطا ایک جگہ رکا، کچھ سوچا اور لفافہ نکال دیا۔
ہم نے پوچھا، کیوں بھئی طوطے، کیا کہتی ہے ہماری قسمت؟
طوطے نے جواب دیا۔ "ٹیں”