لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں علی اور میں ساتھ ساتھ چلتے تھے، لیکن ساتھ نہیں تھے۔ وہ اپنے والد صاحب کو دفنانے آیا تھا، اور میں فقط اسے دلاسہ دینے۔ دینے کو میرے پاس اور کچھ تھا بھی کیا؟
عموماً میں ہی علی کو فون کیا کرتا، اتوار کی صبح اس کا فون آیا تو میں نیند میں تھا۔ سولہ برس قبل بھی ایسے ہی اچانک اس کا فون آیا تھا، "یار مجھے شہر سے باہر جانا پڑا ہے، کل کے ڈرامے میں حصہ نہیں لے سکوں گا۔”
کالج کے سالانہ ڈرامے میں وہ شہزادہ سلیم کا کردار ادا کر رہا تھا۔ "میں اتنی جلدی کوئی نیا اداکار کہاں سے ڈھونڈوں گا، وہ ڈائیلاگ کیسے یاد کرے گا؟” میں غصے میں بولتا جا رہا تھا کہ مجھے علی کے ہنسنے کی آواز آئی، تب مجھے علم ہوا تھا کہ سالانہ ڈرامے سے ایک دن پہلے ہی علی نے میرے ساتھ ڈرامہ کر دیا ہے۔
اب بھی میں نے مسکراتے ہوئے ہی فون سنا تھا، "یار کل تمہارے چینل پر کراچی میں ایک ریٹائرڈ میجر کے قتل کی خبر چلی تھی نا، وہ میرے والد صاحب تھے۔ کسی نے انہیں گولی مار دی، ڈیڈ باڈی لاہور لے آئے ہیں۔”
میں قبرستان میں خالی خالی سا کھڑا تھا۔ قبر میں پڑنے والی مٹی علی کے کندھوں پر پہاڑ بنتی جا رہی تھی۔ میرا جی چاہ رہا تھا یہ بھی سولہ برس قبل کی طرح مذاق ہی ہو، ابھی علی ہنسنے لگے اور کہے، دیکھو کیسا بے وقوف بنایا۔
ہر وقت ہنسانے والے علی نے مجھ سے گلے لگ کر پوچھا تھا، "سب ختم ہو گیا یار، اب کیا بنے گا؟”
اس کے بعد علی کا گلا رندھ گیا تھا اور میری آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔ میں آج بھی علی کے سوال کا جواب سوچ رہا ہوں، آپ کے ذہن میں آئے تو بتائیے گا۔