وہ بدھ کی ایک سرد شام تھی جب مجھے 19 نمبر ہاسٹل میں رہنے والے دوستوں کا ایس ایم ایس موصول ہوا۔
پنجاب یونیورسٹی کے 17 نمبر ہاسٹل میں بدھ کے روز ایگ فرائید رائس بنائے جاتے، جو دیگر ہاسٹلز کے طلبہ میں بھی بہت مقبول اور مرغوب تھے۔
خوش قسمتی سے ہمارا قیام بھی 17 نمبر ہاسٹل میں تھا۔ کھانا تو عموماً مغرب کی نماز کے بعد شروع کیا جاتا، لیکن ہم اور ہاسٹل کے دیگر مکین سر شام ہی میس کے گرد چکر لگانے لگتے۔
میس کے مرکزی دروازے پر جلتی لال بتی "کھانا کھلنے” کا اعلان ہوتا۔ لال بتی جل رہی ہے تو آپ میس جا کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ لیکن بدھ کے روز بتی جلنے کا انتظار بھی دوبھر ہو جاتا۔ اسی لیے ہاسٹل کے لڑکے سورج ڈھلتے ہی میس کے دروازے کے آگے کھڑے ہو جاتے۔ اچھا خاصا جمگٹھا لگ جاتا۔ دیگر افراد کا برآمدے سے گزرنا بھی محال ہو جاتا۔
بتی جلنے کے بعد دروازہ کھلنے میں چند ہی لمحے کی تاخیر ہوتی، لیکن لڑکے دروازہ اکھاڑنے کے درپے ہو جاتے۔
دروازہ کھلتے ہی نشست حاصل کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا۔ تیز طرار لڑکے بھاگ کر کسی نشست پر قابض ہو جاتے۔ کہیں پوری میز کے گرد لگی کرسیاں الٹا دی جاتیں، یہ اس بات کا اشارہ ہوتا کہ جگہ بک کر لی گئی ہے۔ جب کھانا شروع ہوتا، تو چمچ اور پلیٹوں کے ٹکرانے کی آواز سے سارا ہاسٹل گونجنے لگتا۔ جو پہلے ہلے میں نشست حاصل نہ کر سکتے، وہ کھانے والوں کا منہ دیکھتے اور ان کا پیٹ جلد بھرنے کی دعا کرتے۔ کھانے کے بھی کئی مراحل ہوتے۔ ایک بھری ہوئی پلیٹ ختم کرنے کے بعد سپلی منگوائی جاتی۔ سپلی لفظ کا یہ انوکھا استعمال بھی ہاسٹل کی زندگی میں ہی دیکھا۔ عموماً آپ کسی پرچے میں فیل ہو جائیں اور دوبارہ امتحان دینا ہو تو کہا جاتا ہے فلاں مضمون کی سپلی آئی ہے۔ لیکن ہاسٹل میں پلیٹ میں کھانا ختم ہونے کے بعد اضافی کھانا منگوانے کو سپلی منگوانا کہا جاتا۔ تو پہلی پلیٹ ختم کرنے کے بعد سپلی پر سپلی منگوائی جاتی۔ اضافی سپلیاں منگوانے کی کوئی حد مقرر نہ تھی۔ یاروں کا پیٹ بھر جاتا، نیت نہ بھرتی۔
کھانے تو باقی دنوں میں بھی اچھے پکتے تھے، لیکن بھیڑ بھاڑ بدھ کے روز ہی دیکھنے کو ملتی۔
وہ بھی بدھ کی ہی ایک سرد شام تھی جب مجھے 19 نمبر ہاسٹل میں رہنے والوں کا ایس ایم ایس موصول ہوا، "ہم آپ کی طرف ایگ فرائیڈ رائس کھانے آ رہے ہیں۔”
ہم کنجوس طبیعت واقع ہوئے ہیں، پیغام پڑھتے ہی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ موبائل آف کر دیا۔ مشکل وقت میں خدا ہی یاد آتا ہے، آئی بلا کو ٹالنے کی دعا مانگنے ہم بھی مسجد چلے گئے۔ اتنے خشوع و خضوع سے عبادت شاید ہی ہم نے کبھی کی ہو۔ فرض، سنت اور نفل کی ادائیگی کے بعد ہم نے اضافی نوافل ادا کرنے کی بھی نیت باندھ لی۔ پھر ہاتھ اٹھائے اور اگلے پچھلے گناہوں کی بخشش کی دعا مانگنے لگے۔ فرش سے عرش تک پہنچنے میں دعا کتنا وقت لے؟ اپنے تئیں خاصا وقت گزار کر ہم نے ہاتھ نیچے کیے تو چند آنکھوں کو اپنی جانب گھورتے پایا۔ یہ 19 نمبر ہاسٹل کے وہی دوست تھے، جن سے بچنے کے لیے ہم نے اللہ کے گھر میں پناہ لی تھی۔
ہمیں اپنی تمام عبادت و ریاضت مٹی میں ملتی محسوس ہوئی۔ مرے مرے قدموں سے میس کی جانب روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا، اللہ نے اپنے گناہ گار بندے کی دعائیں قبول کر لی تھیں۔ اس بدھ کو ہاسٹل میں ایگ فرائیڈ رائس کے بجائے مکس سبزی پکی تھی۔