صحافیوں کے الیکشن

لاہور پریس کلب کے عہدے داروں کے لیے انتخابات مال روڈ والے الحمرا میں ہونا طے پائے اور سارے ملک کو خبر بتانے والے خود ہی خبر بن بیٹھے۔
الحمرا ہال کے باہر بہت سی موٹرسائیکلوں اور خاصی تعداد میں گاڑیوں کا اژدھام ہے۔ اندر جائیں تو بھی خلقت کی خلقت امڈی پڑی ہے۔
بھانت بھانت کا صحافی موجود۔ کوئی سینوں پر پسندیدہ امیدوار کی تصویر چپکائے ہے، کوئی ہاتھوں میں پیمفلٹ تھامے ہے۔ ایک کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ ڈالنے کی حکم نما درخواست کر رہاہے، دوسرا یقین دلا رہا ہے کہ ووٹ فلاں کو ہی ڈالے گا۔
ذرا آگے جائیں تو عجیب نظارہ ہے، کہیں دھاندلی کا شور، کہیں الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی آوازیں، کہیں پولنگ جاری رکھنے کے نعرے، کہیں جعلی ووٹر پکڑنے کے دعوے۔ غرض ایک ہڑبونگ اور بدنظمی ہے۔
اے لو، قلم کا زور لگانے والے زور بازو بھی آزمانے لگے۔ الحمرا کی ادبی بیٹھک کا دروازہ ہی اکھاڑ دیا۔ جن لوگوں نے وہ دیو قامت دروازہ دیکھ رکھا ہے، انہیں انداز ہو گیا ہو گا کہ ایسی چیزیں معمولی دھکوں سے نہیں ٹوٹتیں۔ کاش ایسے زور آور صحافی اگلے وقتوں کے بادشاہوں کو نصیب ہوتے، قلعوں کے مرکزی دروازے ایک ہی ہلے میں توڑ دیا کرتے۔
اور یہ وہ صحافی ہیں جو عام انتخابات کی کوریج کرتے ہوئے ہلکی پھلکی دھکم پیل کو بھی بریکنگ نیوز کے طور پر چلاتے ہیں۔ سوال اٹھائے جاتے ہیں، کہاں ہے الیکشن کمیشن؟ انتظام کیوں نہ کیا گیا؟ ذمہ دار کون ہے؟
لاہور پریس کلب کے اڑھائی ہزار ممبران ہیں، اور ایک الیکشن کا انتظام نہیں کیا جا سکا۔ پھر یہ صحافی پورے ملک میں انتظامی امور پر نہ صرف تنقید کرتے ہیں، بلکہ اپنے تئیں بہتری کے لیے تجاویز بھی دیتے ہیں۔
اسی روز سندھ اور پنجاب کے چند اضلاع میں بلدیاتی الیکشن بھی تھے۔ ایک صحافی نے مونگ پھلی کھاتے چند پولیس والوں کی فوٹیج بنائی، اور نیوز روم کو خبر بھیجی، "پولیس والے ڈیوٹی چھوڑ کر مونگ پھلی کھانے میں مصروف۔” بھائی خدا کا خوف کرو، کیا مونگ پھلی ایسی چیز ہے جسے کھانے کے لیے ڈیوٹی چھوڑنا پڑتی ہے۔
اور پھر ٹی وی کے پروڈیوسر بھی تو اپنے حقوق کے لیے ایک تنظیم بنا کر الیکشن کرنے چلے ہیں۔ اس تنظیم کے پہلے انتخاب سے پہلے ہی سیاسی کدورتوں کا  مینار سا کھڑا ہو گیا ہے۔ آپ فلاں پینل سے کیوں کھڑے ہوئے، فلاں پینل والے تو کرپٹ ہیں۔ ذرا بتائیے، دونوں پینلز کے امیدوار اور حمایت کنندگان خود ایک دوسرے کے حقوق کا کتنا خیال رکھتے ہیں؟ کسی چینل میں  پروڈیوسر کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا تو کس نے اس کے لیے آواز اٹھائی؟ کسی غلطی پر کوئی معطل ہوا تو کس نے سزا میں کمی کی تگ و دو کی؟ حقوق کے لیے الیکشن لڑنے والے انفرادی سطح پر کیا کوشش کر رہے ہیں، ذرا اپنے گریباں میں جھانک کر بتا دیں۔
اختلاف رائے ایک حسن ہے۔ اگر آپ اپنی ایک رائے رکھتے ہیں تو دوسرے کو بھی ایسا کرنے کا حق دیجیے۔ آپ اپنے تئیں قوم کو شعور دینے چلے ہیں، پہلے خود تو باشعور ہونے کا ثبوت دیجیے۔

One thought on “صحافیوں کے الیکشن

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s