لاہور کے بڑے اسٹور میں ایک گوشہ کتابوں کے لیے بھی مخصوص ہے۔ یہیں ایک سرورق نے توجہ کھینچ لی۔ مسکراتا سا چہرہ کہہ رہا تھا "کچھ نہیں سے سب کچھ”۔
صفحے پلٹنے پر اندازہ ہوا کہ پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی نیٹ سول کے بانی سلیم غوری کی سرگزست ہے۔ کچھ نہیں سے سب کچھ بننے کے گر بتائے ہوں گے، کتاب خریدنے میں تامل نہ کیا۔
سلیم زمانہ طالب علمی میں کبھی بھی پڑھاکو نہیں رہے۔ ہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے رومانیہ ضرور گئے۔ کاروباری تعلقات کی وجہ سے رومانیہ کی حکومت نے ان کے والد صاحب کو یونیورسٹی سطح پر اسکالر شپ کی پیشکش کر رکھی تھی۔ اب باقی بھائی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا یا لندن جا رہے ہیں، اور انہیں بھجوایا جا رہا ہے رومانیہ جہاں کسی کو انگریزی تک بولنی نہیں آتی۔ والد صاحب سے اعتراض کیا تو ٹھیک ٹھاک جھاڑ پڑی۔ رومانیہ میں ہی کمپیوٹر سے تعارف ہوا۔
تعلیم مکمل ہوئی تو والد صاحب کا کاروبار بحران کا شکار تھا۔ ایک ادارے سے کمپیوٹر کی زبان کوبول کا کورس کیا۔ بھائی سعودی عرب میں تھے، انہی کے توسط سے ریاض میں ٹرانسپورٹ آفیسر کی نوکری مل گئی۔ چھ ہزار ریال تنخواہ، کام واجبی، اوور ٹائم ملا کر آٹھ ہزار ریال تک یافت ہو جاتی۔ زندگی سکون سے گزرنے لگی۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
Monthly Archives: جنوری 2016
اینکر نے ہم کو عبث بدنام کیا
دفتری کام میں مشغول تھے کہ دائیں ہاتھ خالی کرسی پر ایک خاتون آ کر بیٹھ گئیں۔ یہ کون ہیں؟ کیوں آئی ہیں؟ تجسس تو ہوا لیکن پوچھنے کا یارا نہ ہوا۔
یہی کھدبد لیے ہم کام میں مصروف رہے۔ آخر تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کا حدوداربعہ اور غرض و غایت دریافت کر لیا۔ معلوم ہوا اینکر کی اسامی پر تقرری ہوئی ہے۔ یہاں آنے سے قبل سال بھر دوسرے چینل میں کام کر چکی ہیں۔ چکی کی اس مشقت کے ساتھ ساتھ مشق پڑھائی بھی جاری ہے۔ اور خیر سے اپنی جماعت میں اول بھی آتی ہیں۔
ہم مرعوب ہوئے، چینل میں خوش آمدید کہا، نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا اور اپنے کام میں مگن ہو گئے۔
اگلے روز دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ خاتون پرانے چینل میں واپس چلی گئی ہیں۔ وہاں انہیں بہتر تنخواہ اور مراعات کی پیش کش تھی۔ لیکن سنانے والوں نے ایک اور بات بھی سنائی، خاتون جاتے جاتے ہمارے چینل کے لوگوں کو پینڈو قرار دے گئی ہیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
دروازے پر کھڑی گاڑی
اٹھ کر ناشتہ کرنے کے بعد گیراج میں کھڑی گاڑی، موٹرسائیکل اور سائیکل پر کپڑا مارنے کی عادت ہے۔ اس صبح دیکھا کہ دروازے کے باہر کوئی نامعقول، گاڑی یوں کھڑی کر گیا ہے کہ اپنی گاڑی نکالنا چاہیں تو ممکن نہ ہو گا۔
ہم گاڑی پر دفتر نہیں جاتے، پھر بھی اس صورتحال پر جھنجھلائے۔ یعنی کسی کو کیا حق ہمارے دروازے پر گاڑی کھڑی کرنے کا۔ اب یہ بھی معلوم نہیں کہ گاڑی کا مالک پڑوس کے کس گھر میں ہے۔ باہر نکل کر اندازہ لگانے کی کوششش کی، لیکن صبح کے چھ بجے آدم نہ آدم زاد۔ جھنجھلاہٹ بتدریج غصے میں ڈھلنے لگی۔ یاد آیا کچھ ہی دن پہلے ایک مہمان کو تڑکے اٹھ کر چھوڑنے جانا پڑا تھا۔ ایسا ہی کوئی معاملہ ہو، یا خدانخواستہ کوئی افتاد آن پڑے اور کوئی لاپرواہ شخص ہمارے گھر کے آگے اپنی گاڑی کھڑی کر جائے تو کیا بنے گا۔ ممکنات کو سوچتے سوچتے پیچ و تاب بڑھتی چلی گئی۔ بس نہیں چلتا تھا کہ گاڑی کا مالک سامنے آئے اور اسے خوب صلواتیں سنائیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں