لاہور کے بڑے اسٹور میں ایک گوشہ کتابوں کے لیے بھی مخصوص ہے۔ یہیں ایک سرورق نے توجہ کھینچ لی۔ مسکراتا سا چہرہ کہہ رہا تھا "کچھ نہیں سے سب کچھ”۔
صفحے پلٹنے پر اندازہ ہوا کہ پاکستانی انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی نیٹ سول کے بانی سلیم غوری کی سرگزست ہے۔ کچھ نہیں سے سب کچھ بننے کے گر بتائے ہوں گے، کتاب خریدنے میں تامل نہ کیا۔
سلیم زمانہ طالب علمی میں کبھی بھی پڑھاکو نہیں رہے۔ ہاں اعلیٰ تعلیم کے لیے رومانیہ ضرور گئے۔ کاروباری تعلقات کی وجہ سے رومانیہ کی حکومت نے ان کے والد صاحب کو یونیورسٹی سطح پر اسکالر شپ کی پیشکش کر رکھی تھی۔ اب باقی بھائی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا یا لندن جا رہے ہیں، اور انہیں بھجوایا جا رہا ہے رومانیہ جہاں کسی کو انگریزی تک بولنی نہیں آتی۔ والد صاحب سے اعتراض کیا تو ٹھیک ٹھاک جھاڑ پڑی۔ رومانیہ میں ہی کمپیوٹر سے تعارف ہوا۔
تعلیم مکمل ہوئی تو والد صاحب کا کاروبار بحران کا شکار تھا۔ ایک ادارے سے کمپیوٹر کی زبان کوبول کا کورس کیا۔ بھائی سعودی عرب میں تھے، انہی کے توسط سے ریاض میں ٹرانسپورٹ آفیسر کی نوکری مل گئی۔ چھ ہزار ریال تنخواہ، کام واجبی، اوور ٹائم ملا کر آٹھ ہزار ریال تک یافت ہو جاتی۔ زندگی سکون سے گزرنے لگی۔
ایک بینک میں کمپیوٹر سے متعلقہ نوکری کی درخواست دے رکھی تھی۔ چھ سات ماہ بعد کال آ گئی۔ تنخواہ تین ہزار ریال، شفٹ بھی رات کی، اور ریاض چھوڑ کر دور دراز علاقے دمام جانا ہو گا۔
اس وقت تک شادی خانہ آبادی بھی ہو چکی تھی، پاکستان میں والد صاحب کا کاروبار بالکل ختم ہو چکا تھا۔ سلیم غوری کے بھیجے پیسوں پر گھر چلتا تھا۔ بینک کی نوکری ہر لحاظ سے خسارے کا سودا تھا، لیکن کمپیوٹر کے شعبے میں کام کرنے کی لگن کو ترجیح دی اور ٹرانسپورٹ آفیسر کی لگی لگائی نوکری چھوڑ کر جان جوکھوں میں ڈال لی۔
کہتے ہیں انہیں یہ فیصلہ کرنے میں ایک پل لگا کہ زیادہ پیسوں اور آرام دہ نوکری چھوڑ کر ایسا پیشہ اختیار کریں جہاں پیسے بھی کم ہیں اور کام کی مہارت بھی نہیں۔ شہر بدری اور رت جگے کا عذاب الگ۔ لیکن ایک ہی دھن سمائی تھی کہ کمپیوٹر کا ماہر بننا ہے۔
یہاں کام کرتے کرتے خاندان اور دوستوں میں سلیم غوری کی شہرت بطور کمپیوٹر ماہر کے ہو گئی۔ کزن کی کمپنی میں کمپیوٹر آیا تو سیکھنے اور سکھانے کے لیے بلوائے گئے۔ پھر ایک اور سعودی شہری نے کمپیوٹر سکھانے کا کہا تو انہوں نے سو ریال فی گھنٹہ مانگے۔ فوراً اقرار کر لیا گیا۔ پھر تو جیسے راستہ کھل گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر کالز آنے لگیں۔ پھر کہیں سے سافٹ ویئر بنانے کی درخواست بھی آ گئی۔ قیمت طے کی نہ وقت، حامی بھر لی۔ سافٹ ویئر متعلقہ کمپنی کی توقعات کے مطابق بنا، انہیں دس ہزار ریال معاوضہ دیا گیا۔
جسے سو ریال فی گھنٹہ میں پہلی بار کمپیوٹر سکھایا، اسی کے ساتھ مل کر ایک ادارہ کھول لیا۔ کہتے ہیں زندگی میں مواقع بنائے جاتے ہیں، ملا نہیں کرتے۔ ٹھیک وقت پر اپنے لیے بہترین مواقع پیدا کر لینے کا نام ہی کاروباری نظامت ہے۔
معاملات بخوبی چلنے لگے، لیکن پھر ایک مشکل آن پڑی۔ بینک والوں نے کہا نوکری جاری رکھنی ہے تو ذاتی کاروبار سے دست بردار ہونا ہو گا۔ یہاں بھی ایک پل نہ سوچا اور بینک کو خیرباد کہہ دیا۔
کاروبار پر توجہ دی تو مزید پھلا پھولا۔ اسٹاف بھی بڑھ گیا، سافٹ ویئر بھی زیادہ تیار ہونے لگے۔ ایک دن سعودی پارٹنر نے الزام لگایا کہ وہ کمپنی کا سافٹ ویئر کسی اور کو بھی دے رہے ہیں۔ بات جھوٹ تھی، لیکن شک کا بیج پڑ جائے تو غلط فہمیوں کے پھل اگتے ہیں۔ یاروں دوستوں نے مصالحت اور مفاہمت کے مشورے دیے، لیکن یہ سب چھوڑ چھاڑ پاکستان واپس آ گئے۔
پاکستان میں بہت کڑا وقت دیکھا، تربیتی ادارہ چلانے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ ایک بھائی آسٹریلیا میں آباد تھے۔ ان کے مشورے پر آسٹریلیا پدھارے۔
نئی سرزمین پر بھی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ کئی برس گزارے۔ دیکھا کہ آسٹریلیا میں بھارتی کمپنیوں سے سافٹ ویئر بنوائے جا رہے ہیں تو پاکستان میں ایک ایسی ہی کمپنی بنانے کی ٹھانی۔ پاکستان میں بھائی نے حوصلہ افزائی کی اور سرمایہ فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
کاروبار شروع کرنے سے پہلے پاکستانی منڈی پر کوئی تحقیق نہ کی تھی۔ سہانے سپنے لیے آئے، دفتر کی داغ بیل ڈالی اور کام ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ کئی مہینے گزر گئے، لیکن وہ بزنس کال نہ آئی جس کا انتظار تھا۔ آخر بیگم کو ہی کہہ دیا کہ دن میں دو دفعہ دفتر کے نمبر پر کال کیا کریں۔
مہینوں انتظار کے بعد برطانیہ سے بھائی کی کال آئی جو کار بنانے والی کمپنی مرسڈیز بینز کے آئی ٹی شعبے میں کام کرتے تھے۔ اس کمپنی کو بینکاک میں ایسے افراد درکار تھے جو مخصوص کمپیوٹر چلانا جانتے ہوں۔ انہوں نے پاکستان سے وہ افراد ڈھونڈ کر فراہم کر دیے۔
سلیم غوری کمپنی کو قائل کرنا چاہتے تھے کہ ان سے سافٹ ویئر بھی بنوایا جائے۔ صرف میل جول بڑھانے کو وہ چھ ماہ تک بنکاک جاتے رہے۔ ائیر پورٹ سے سیدھے جا کر کمپنی کے آئی ٹی سربراہ کو ملتے اور رات کی پرواز سے واپس آ جاتے۔ کہتے ہیں "مواقع صرف انہی کو ملتے ہیں جو گھر سے باہر نکلتے ہیں۔”
آخر کو انہیں مرسڈیز کی جانب سے تائیوان میں سافٹ ویئر بنانے کی پیشکش ہوئی جسے کامیابی سے مکمل کیا گیا۔
یہاں سے نیٹ سول کی اٹھان شروع ہوئی اور آج وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی شاخیں پھیلا چکی ہے۔
ہم نے تو یہ سیکھا کہ سلیم غوری نے فیصلے کرنے میں ہمیشہ جراٰت سے کام لیا۔ ان کی تقلید کا سوچا تو خیال آیا کہ سلیم کے بھائی مستحکم زندگی گزار رہے تھے، اور ایک بھائی کاروبار کے لیے سرمایہ فراہم نہ کرتے تو کتاب میں لکھی باتیں خواب و خیال ہی ہوتیں۔ بلکہ یہ بھی دیکھا اور سلیم اپنی سرگزشت میں اقرار بھی کرتے ہیں کہ ترقی میں بھائیوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا۔ پہلی نوکری بھائی کے توسط سے ملی، آسٹریلیا جانا بھائی کی رائے تھی، واپس پاکستان آنے پر کاروبار کے لیے سرمایہ بھائی نے فراہم کیا، مرسڈیز سے کام بھائی کے توسط ملا، امریکی اسٹاک مارکیٹ تک رسائی بھی بھائی کی بدولت ہی ممکن ہوئی۔ اتنے مستحکم بھائیوں کے ہوتے مزاج میں جراٰت آہی جاتی ہوگی۔
کتاب سے جانا کہ سلیم غوری کو جب بھی کوئی خیال آیا اس پر عمل کر گزرے تاکہ ملال نہ رہے (اور شاید انہیں اس کے وسائل بھی میسر رہے)۔ اپنی اور اپنی کمپنی میں کام کرنے والوں کی استعداد کار بڑھانے کو بھی ترجیح دی۔ ورزش کو معمول بنا رکھا ہے۔ ذہن کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ اچھا پہننے، اچھا کھانے اچھا سوچنے اور اچھا بولنے کا شوق ہے۔
نیٹ سول نے اپنا معیار کیسے قائم کیا اور کیسے اسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ کہانی دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ کتاب نو سو روپے میں کسی بھی کتاب گھر سے دستیاب ہے۔
شکر کہ کسی نے انتساب غور سے نہیں پڑھا ۔۔ 😛
پسند کریںپسند کریں
ارے ارے. انتساب پڑھا تو تھا، لیکن دیہان ہی نہ دیا
پسند کریںپسند کریں