دودھ کی بوتل

ماشاءاللہ سے منا بڑا ہو رہا تھا۔ اب دودھ کی چھوٹی بوتل اس کا پیٹ نہ بھرتی۔ غٹاغٹ پی جاتا اور مزید کے لیے غل مچاتا۔ ابا اماں کی نیند خراب ہوتی سو ہوتی، منا بھی بے آرام ہوتا۔ تس پر منے کے ابا نے سوچا دودھ کی بڑی بوتل لانا چاہیے، جو ایک ہی بار سیر کر دے۔
تو جناب نئی بوتل آ گئی۔ قد کاٹھ میں بڑی، پہلے سے موجود بوتلیں ٹھنگنی لگنے لگیں۔ رنگ بھی ایسا دل پذیر گویا گلاب کی پنکھڑی ہو۔ بڑے چاؤ سے اس میں دودھ ڈالا گیا اور بوتل منے کے حوالے کی گئی۔ لیکن اس بے چارے کو نئی مشکل آن پڑی۔ چھوٹی بوتل تو وہ آرام سے پکڑ لیتا تھا، یہ قابو میں ہی نہ آوے۔ ہاتھ اوپر رکھے تو پیندا جھک جاوے، پیندے سے پکڑے تو ہاتھ نہ جمے۔ دودھ پینے میں دقت ہوئی تو منا کسمسانے لگا۔ ابے نے سوچا، لے بھئی منے تو بھی کیایاد کرے گا، بوتل پکڑ لی تاکہ منا آسانی سے پیوے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

کرسی سے شادی

ایک دفتر میں کرسیوں کی تعداد کم تھی اور بیٹھنے والوں کی زیادہ۔ طلب اور رسد کے اس فرق کے باوجود کام بخوبی چل رہا تھا کہ چند زور آوروں نے زور لگا کر کچھ کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ اب کرسی کوئی پلاٹ تو ہے نہیں جس کے گرد دیوار کھڑی کر کے اپنے بندے بٹھا دیے جائیں۔ نابغوں نے اس کا بھی حل نکال لیا۔ جیسے پالتو جانوروں کو پٹے ڈالے جاتے ہیں، اسی طرح کرسیوں کو بھی ڈال دیے گئے۔
چونکہ ان حضرات نے اس سے قبل صرف ازاربند ہی باندھے تھے، لہذا کرسیاں باندھنے کے لیے بھی اسی کا انتخاب کیا۔ باحیثیت افراد نے تو زیر قبضہ کرسیوں کے لیے ریشمی ازاربند بنوائے۔ جسے ازار بند نہ ملا، اس نے دفتر میں موجود مختلف تاروں سے ہی کام چلایا۔ ایک کرسی کو ٹیلی فون کی تار سے باندھا گیا۔ جب کسی کا فون آتا، یہ کرسی بھی ٹنٹنا اٹھتی (گنگنا اٹھنے کے وزن پر)۔ بعد میں اسے نیٹ ورکنگ کیبل سے باندھا گیا، تاکہ دفتری نیٹ ورک کی طرح یہ کرسی بھی سکون سے سوئی رہے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں

ہمارے ناز اٹھانے والا احسن اختر

Ahsan Akhtar Naz"اوئے تحفے! کیا کر رہے ہو؟”
پنجاب یونیورسٹی ادارہ ابلاغیات کے کمروں، برآمدے یا سبزہ زار میں جب یہ جملہ گونجتا، سننے والوں کے چہروں پر مسکراہٹ سی دوڑ جاتی۔ یہ طرز تخاطب عموماً ازراہ تحقیر اختیار کیا جاتا ہے، لیکن احسن اختر ناز صاحب کسی سے محبت کرتے تو یوں بلاتے۔ اسی لیے سننے والا خوشی سے پھولے نہ سماتا۔
کہنے کو وہ ادارہ ابلاغیات کے استاد تھے، لیکن سبھی طالب علموں کو دوست بنا کے رکھتے۔
ایک دفعہ ہم نے کلاس میں کوئی غیر ضروری سا سوال پوچھ لیا۔ کہنے لگے، دیکھو بھئی نوجوان! جیسے ہر مکینک انجینیئر نہیں ہوتا، اسی طرح ہر عینک لگانے والا دانشور نہیں ہوتا۔ ہم اپنی عینک کے زور پر دانشوری کے آسمان پر اڑ رہے تھے، دھڑام سے زمین پر آ رہے۔
اس واقعے کے بعد سے ہمارا اسٹیٹس تحفے سے اپ گریڈ ہو کر دانشور ہو گیا۔
ہماری ایک کلاس فیلو شیخوپورہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کو بلانا ہوتا تو آواز لگاتے، او شیخوپورے!
وہ پڑھ لکھ کر پڑھانے بھی لگ گئیں تو طرز تخاطب یہی رہا۔ ایک دفعہ وہ کلاس کو پڑھا رہی تھیں۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز نے کلاس روم کا دروازہ کھولا، انہیں پڑھاتے دیکھا تو کہنے لگے، او شیخوپورے! کیا کر رہی ہو۔ کو پڑھنا جاری رکھیں