ایک دفتر میں کرسیوں کی تعداد کم تھی اور بیٹھنے والوں کی زیادہ۔ طلب اور رسد کے اس فرق کے باوجود کام بخوبی چل رہا تھا کہ چند زور آوروں نے زور لگا کر کچھ کرسیوں پر قبضہ جما لیا۔ اب کرسی کوئی پلاٹ تو ہے نہیں جس کے گرد دیوار کھڑی کر کے اپنے بندے بٹھا دیے جائیں۔ نابغوں نے اس کا بھی حل نکال لیا۔ جیسے پالتو جانوروں کو پٹے ڈالے جاتے ہیں، اسی طرح کرسیوں کو بھی ڈال دیے گئے۔
چونکہ ان حضرات نے اس سے قبل صرف ازاربند ہی باندھے تھے، لہذا کرسیاں باندھنے کے لیے بھی اسی کا انتخاب کیا۔ باحیثیت افراد نے تو زیر قبضہ کرسیوں کے لیے ریشمی ازاربند بنوائے۔ جسے ازار بند نہ ملا، اس نے دفتر میں موجود مختلف تاروں سے ہی کام چلایا۔ ایک کرسی کو ٹیلی فون کی تار سے باندھا گیا۔ جب کسی کا فون آتا، یہ کرسی بھی ٹنٹنا اٹھتی (گنگنا اٹھنے کے وزن پر)۔ بعد میں اسے نیٹ ورکنگ کیبل سے باندھا گیا، تاکہ دفتری نیٹ ورک کی طرح یہ کرسی بھی سکون سے سوئی رہے۔
ہوتے ہوتے یہ صورتحال خطرناک رخ اختیار کرنے لگی۔ دفتر کے جو حضرات سمجھتے تھے کہ کسی ایک کرسی پر قبضہ کر لینا غیر اخلاقی حرکت ہے، وہ بغاوت پر اتر آئے۔ بارہا کسی کی بندھی ہوئی کرسی یوں کھول لی گئی جیسے ڈیرے پر بندھی بھینس کھولی جاتی ہے۔ تدارک کے لیے کچھ آہنی عزم والے یار دوستوں نے اپنی کرسیوں کو آہنی زنجیریں پہنا دیں اور ان میں کرنٹ چھوڑ دیا۔
جب معاملات مزید بگاڑ کی جانب بڑھے، تو دفتر کے بڑے بوڑھوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ کرسی اور اسے باندھنے والے کا نکاح بھی پڑھوا دیا جائے۔
کرسی کو عام طور پر مونث خیال کیا جاتا ہے، اس لیے خواتین قابضین کے لیے بھی قانون میں خصوصی ترمیم کی گئی۔
کرسیوں کے ساتھ عشق ممنوع کا رواج نکلا تو ایسی باتیں بھی گردش کرنے لگیں، "کل تمہاری کرسی فلاں کے ساتھ دیکھی گئی۔” یہاں تک کہ کسی کی کرسی کی طرف ایک نظر دیکھنے پر قتل و غارت ہونے لگی۔
پہلے شادی کی تقریبات میں چھڑے چھانٹ حضرات، شادی شدہ جوڑوں اور غیر شادی شدہ خواتین کو بالترتیب حسرت اور امید بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ اب ایسی ہی نظروں سے کرسیوں کو دیکھنے لگے۔ یہاں تک کہ دفتر میں کام کرنے والے حضرات کے والدین کا بھی محاورہ بدل گیا۔ ایک خاتون کہتی پائی گئیں، "میں اپنے بیٹے کے لیے چاند سی کرسی تلاش کروں گی۔”
فلموں کے گانے تک بدل گئے۔۔۔
تو نے لائی کرسیاں تو دل میں بجی گھنٹیاں… ٹن ٹن ٹن
ڈرامے بھی اس نام کے بننے لگے، "کرسی بھی کبھی پلاسٹک تھی۔”
پھر یہ ہوا کہ جو اہمیت دفتر میں کرسیوں کو دی جاتی، اتنی گھر میں خاتون خانہ کو نہ ملتی۔ اس پر دفتری ملازمین کی بیویوں نے ایک تنظیم بنا لی جس کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا، "ہمیں بھی کرسیوں جتنے حقوق دیے جائیں۔”
بعض افراد نے تو کرسیوں کے لیے ویلنٹائن کے تحفے بھی خریدے۔ دیگر نے حیا ڈے مناتے ہوئے کرسیوں کو نیا ازار بند پہنایا۔
دفتر کے ساتھی جو کرسیوں سے محروم رہ گئے، انہوں نے منکوحہ جوڑوں سے امید لگا لی، کہعنقریب اللہ خوشی دکھائے گا، ننھی منی کرسیاں تولد ہوں گی، کبھی نہ کبھی جوان بھی ہوں گی، اور وہ ان کے ساتھ ہاتھ پیلے کریں گے۔
پس تحریر: صورتحال یہاں تک پہنچی کیسے، جاننے کا اشتیاق ہے تو پڑھیں۔۔۔ ہمارے دفتر کی کرسیاں
بہت ہی اعلیٰ۔۔۔ یعنی کہ بہت ہی علیٰ!
پسند کریںLiked by 1 person
محبت ہے آپ کی
پسند کریںپسند کریں
بہت خوبصورت عمیرمحمود۔ چھا گئے۔
پسند کریںLiked by 1 person
شکریہ اویس
پسند کریںپسند کریں
ہا۔۔ ہا ۔۔۔ عمیر بھائی ۔۔۔ کمال ہے۔۔
پسند کریںLiked by 1 person
مہربانی عزیر بھائی
پسند کریںپسند کریں
ہلکا پھلکا انداز اچھا لگا
پسند کریںLiked by 1 person
محمد مبین صاحب۔ تعریف اور حوصلہ افزائی کا شکریہ
پسند کریںپسند کریں
کرسی چھوڑنے پرکون تیار ہوتا ہے۔ آپ گھر سے اپنی کرسی اٹھاکرکیوں نہیں لےجاتے؟نام لکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
پسند کریںپسند کریں
جی مشورہ تو اچھا ہے لیکن اس کے لیے گھر میں بھی کرسی ہونا ضروری ہے
پسند کریںپسند کریں