تم میرے مقروض ہو راشد

یہ اسی شام کا ذکر ہے جب ہم اپنی تنخواہ بڑھنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ آخری بار تںخواہ بڑھے کئی سال گزر چکے تھے، اور اس بار افواہ سی تھی کہ روایت توڑ دی جائے گی، اب کی بار پگار ضرور بڑھائی جائے گی۔
اوروں کا تو نہیں معلوم، ہم تو ہمہ وقت اس گھڑی کے بارے میں سوچتے جب مہینے کے آخر میں اضافہ شدہ تنخواہ ملے گی۔ جانے وہ اضافہ کتنا ہو گا؟ کئی سال ایک ہی تنخواہ پر کام کرنے کی کسر نکلے گی یا اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو گا؟ کہیں جو ہماری کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا تو الٹا تنخواہ کم نہ کر لی جائے؟ غرض، دن اسی اُدھیڑ بن میں گزرتا اور رات اسی شش و پنج میں کٹتی۔
جاگتی آنکھوں سے کبھی خواب دیکھتے کہ تنخواہ بے تحاشا بڑھ گئی ہے اور بینک اکاؤنٹ میں پھولے نہیں سما رہی۔ کبھی دیکھتے کہ تنخواہ بمطابق ہماری لیاقت کے بڑھائی گئی ہے، یعنی صفر۔ اس بارے میں بات کرنا بھی اچھا لگتا۔۔۔ تو بہانے بہانے سے ذکر چھیڑ دیتے۔ کبھی للو کو بلا کے پوچھ رہے ہیں، "کیوں بے للو! کیا لگے ہے تجھے؟ اب کی بار چھپر پھٹے گا نا؟” للو کا تبصرہ دل کو خوش آیا ہے تو ٹھیک، اور جو اس نے کوئی مایوسی کی بات کی تو سر جھٹک کے نیا مبصر تلاش کر لیا۔ یہی پیش گوئیاں اور چہ میگوئیاں دل بہلائے رکھتیں۔ مہینہ بہت ہی طویل لگنے لگا تھا۔
تو ایسی ہی ایک شام کو، ذرا سواد کی خاطر، ہم نے پھر تنخواہ کا ذکر چھیڑا۔ ہمارے سامعین میں ایک عدد راشد صاحب بھی تھے، بے نیازی سے بولے، "مجھے تو اضافی تنخواہ کی ایسی خاص ضرورت نہیں، جو مل رہا ہے اسی پر قانع ہوں۔”
ہوں! ہمارے منہ سے بے ساختہ ایک ہنکارا سا نکلا۔ بھلا ایسی بھی کیا قناعت پسندی؟ ہم اندر ہی اندر کھولنے لگے۔ یعنی جس چیز کو ہم نے جان کا روگ بنا رکھا ہے، وہ راشد صاحب کے لیے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ اب ٹھیک سے یاد نہیں، شاید ہم زہر سے بجھی ایک ہنسی ہنسے، یا استہزائیہ قسم کا قہقہہ لگایا۔ ہو سکتا ہے راشد صاحب کا ٹھٹھا بھی اڑایا ہو۔ لیکن اپنا آپ بہت لالچی سا لگنے لگا۔ یعنی ایک طرف ہم ہیں جو طمع کے کیچڑ میں دھنسے ہیں، تنخواہ کے علاوہ کچھ سوچتے ہی نہیں، دوسری طرف راشد صاحب ہیں، کیسی بے پروائی اور بے طمعی سے کہہ دیا اضافی تنخواہ کی ایسی خاص ضرورت نہیں۔
جیسے جیسے سوچتے گئے، ضمیر کی کلبلاہٹ بڑھتی گئی۔ آخر اپنے ہی ضمیر کو تھپکنے کے لیے کہہ دیا، "بھیا ایسی ہی بات ہے تو آپ اضافی تنخواہ ہر ماہ ہمیں دے دیا کیجیے گا۔” راشد صاحب ٹھٹھکے ضرور، لیکن انکار نہ کیا۔ agreement with Rashidہم نے سوچا کل کس نے دیکھی ہے، کیوں نہ زبانی معاہدے کو دستاویز کی شکل دے دی جائے۔ جھٹ سے ایک تحریر گھسیٹی، "میری جتنی سیلری بڑھی وہ عمیر کو دے دوں گا۔” نیچھے انہی سے دست خط کرائے۔ معاہدے کو مزید حتمی بنانے کے لیے وہاں موجود دیگر افراد کو گواہان کا درجہ دیا گیا اور ان سے بھی دست خط کرنے کی درخواست کی گئی۔ گواہ نے ہماری پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں جاتے دیکھا تو تحریر میں
اپنی طرف سے اضافہ کر دیا، "دس فیصد گواہان کو بھی دیا جائے گا۔”

لو جی اس کے بعد تو وہاں موجود دیگر افراد بھی گواہ بننے کے درپے ہو گئے۔ ضرورت صرف دو دست خطوں کی تھی، چار افراد نے معاہدہ پر اپنے نام ثبت کر دیے۔
واقعے کو چھ سال ہونے کو ہیں۔ معاہدے کی رو سے راشد صاحب نے نو جولائی 2010 کے بعد جتنی بھی اضافی تنخواہ کمائی اس کے اصل حق دار ہم ہیں۔ لہذا شتابی سے ہمیں اب تک کے بقایا جات ادا کر دیے جائیں۔

4 thoughts on “تم میرے مقروض ہو راشد

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s