کتابوں میں کہانیاں ہوتی ہیں، لیکن کچھ کتابوں کی بھی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ہمیں فٹ پاتھ پر بکھری کتابیں پھرولنے کا ہوکا ہے، آج ایک کتاب سے وابستہ کہانی کہوں گا۔
یونیورسٹی کے دنوں میں ہمارے ایک دوست اسٹیج ڈرامے میں اداکاری کر رہے تھے، ڈرامے کا عنوان تھا "اردو ڈرامے کا جلسہ”۔ اس میں تاریخی اردو ڈراموں کے کچھ حصے اسٹیج کیے گئے، مثلاً راجہ اندر، خورشید، خوبصورت بلا اور تعلیم بالغاں وغیرہ۔
ہم ریہرسل کے دوران بھی دوست کے ہمراہ جاتے رہے اور ڈرامہ جب اسٹیج پر پیش کیا گیا تو بھی گئے۔ مکالموں کا لطف اٹھایا، شاید اسٹیج ڈرامے کے ابتدائی دنوں میں منظوم مکالمے لکھے جاتے تھے۔
یہ غالباً سنہ 2005 کی بات ہے۔ ایک دن فٹ پاتھ پر بوسیدہ سی کتاب نظر آئی، سرورق پر لکھا تھا، "خوبصورت بلا”۔ ارے اس نام سے تو ایک ڈرامے کا کچھ حصہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ کتاب خرید لی۔
گھر آ کر کھولی تو پہلے صفحے پر لکھی تحریر نے عجیب سے احساس سے دوچار کیا۔ یہ کتاب فرخندہ حق نواز نامی کسی خاتون کو بطور انعام ملی تھی۔ فرخندہ صاحبہ گورنمنٹ کالج فار ویمن میں سال دوئم کی طالبہ رہی ہوں گی، انہوں نے تحت اللفظ اشعار پڑھنے کے مقابلے میں اول انعام حاصل کیا تھا۔ اور یہ گورنمنٹ کالج منٹگمری میں واقع تھا۔ جی ہاں، تحت اللفظ اشعار پڑھنے کا یہ مقابلہ 25 ستمبر 1954 کو ہوا۔ اس وقت منٹگمری ساہیوال نہیں بنا تھا۔ اردو کی جن استانی نے یہ تحفہ دیا ان کے دست خط تو ہیں لیکن نام پڑھا نہیں جاتا۔
1954 میں انعام جیتنے والی فرخندہ حق نواز صاحبہ کون تھیں، ان کو تحفے میں ملنے والی کتاب سنہ 2005 میں لاہور کے فٹ پاتھ پر کیا کر رہی تھی؟ اگر انہوں نے تحت اللفظ اشعار پڑھنے کا مقابلہ جیتا تھا تو یقیناً شعر و شاعری سے شغف رہا ہو گا۔ اور انعام میں ملنے والی چیز تو ویسے بھی عزیز ہوتی ہے۔ پھر ایسے کیا حالات ہوئے کہ کتاب ان کے ہاتھوں سے نکل گئی؟ کتاب میرے تک پہنچتے پہنچتے اکیاون برس بیت چکے تھے، اس دوران کیا کچھ ہوا ہو گا؟
میں تخیل کے زور پر تانے بانے ملانے کی کوشش کرتا ہوں۔ انعام پانے پر فرخندہ صاحبہ نے بڑے شوق سے اپنی کتابوں کی الماری میں سجایا ہوگا۔ ہو سکتا ہے اس میں لکھے مکالمے بھی ازبر کیے ہوں اور گفتگو کے دوران استعمال کیے ہوں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے انہیں کتاب بالکل پسند ہی نہ آئی ہو، انہوں نے لاپروائی سے اسے پھینک دیا ہو۔ لیکن لاپروائی والی کہانی پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ کتاب کی حالت سے لگتا ہے اسے بہت سینت سینت کر رکھا گیا۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بوسیدہ نہیں لگتی۔
میں کتاب سامنے رکھے کہانیاں جوڑتا ہوں، ایک تجسس سا ہے جو پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اسی لیے کتاب کی ادھوری سی کہانی لکھ چھوڑی ہے۔ شاید یہ فرخندہ صاحبہ تک پہنچ جائے۔ اللہ کرے وہ حیات ہوں، لگ بھگ اسی برس کی ضرور ہوں گی۔ اگر میں انہیں مل پاؤں تو ان سے کتاب کی کہانی سنوں گا۔ اور پھر تحفے کے طور پر انہی کی کتاب انہیں واپس کر دوں گا۔
کیا آپ فرخندہ حق نواز صاحبہ کو ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے؟
.
فٹ پاتھ سے حاصل کردہ اس کتاب کی بابت آپ کی دلچسپی و خیالات و احساسات و نیک جزبات اور انھیں کی کتاب انھیں تحفہ میں دینے کا پڑھ کر خوشی ہوئی..
نازنین خان
پسند کریںپسند کریں
شکریہ نازنین صاحبہ۔ شاید صحافی ہونے کی وجہ سے میری طبعیت میں غیر ضروری تجسس بھر گیا ہے۔ اب دیکھیں کتاب 2005 میں خریدی، لیکن فرخندہ صاحبہ سے ملنے اور کتاب کی کہانی جاننے کا تجسس ابھی تک موجود ہے
پسند کریںپسند کریں
ایک بار ہم نے بھی صدر میں پرانی کتب کے سنڈے بازار کا دورہ کیا تھا ۔۔ ایسی ایسی کتب اور ایسے ایسے نامے نامیوں کے نام لکھے تھے اور کتب وہاں کچرے میں پڑی تھیں ۔۔ دیکھ کر افسوس کے ساتھ عجیب قسم کا احساس ہوتا ہے۔ دینے والوں نے کس قدر محبت کے ساتھ لکھ کر دی ہونگی ۔ لینے والوں پر جانے کا گزری کہ آج یہ کچرے پر پڑی تھیں
پسند کریںLiked by 1 person