لینڈ لائن ٹیلی فون کی کہانی

ہم ایک لینڈ لائن ٹیلی فون ہیں۔ کیا؟ نہیں پہچانا؟ ارے وہی جو ٹی وی لاؤنج میں کونے میں پڑے رہتے ہے۔ لاحول ولا، آپ کے بزرگوار کی بات نہیں ہو رہی، ارے وہی جو آپ کے ڈی ایس ایل کنکشن کے ساتھ جہیز میں آئے تھے۔
چلیں شکر ہے آپ نے پہچانا تو۔ ہم عرض کر رہے تھے۔۔۔ بھئی آپ پھر اپنے موبائل فون سے کھیلنے لگے! دیکھیے جناب زمانے نے ہمارے ساتھ کیا چال چلی ہے۔ کہاں تو ہمارا کنکشن لگوانے کے لیے وزیروں کی سفارش کروانا پڑتی تھی، کہاں نیم دلی سے کی گئی فون کال پر جھٹ سے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایسی بے قدری۔
پہلے ہم سجا سنوار کر گھر میں مرکزی جگہ دھرے جاتے تھے، جو آتا جاتا ایک پیار بھری نظر ضرور ڈالتا۔ اجی اس زمانے میں ہم پر ذمہ داری بھی تو بہت بھاری تھی۔ ساری دنیا کے رابطے کا ایک ہم ہی ذریعہ تھے۔ پھر معاشرتی اخلاق کے بھی امین۔ جہاں کسی پروانے نے شمع کو فون ملایا، ہم نے شمع کے ابے مشتاق کو جگایا۔ طالب اور مطلوب کے درمیان کباب کی ہڈی ہم ہی ہوتے تھے۔ گفتگو رومانوی ہونے لگتی تو حیا کے مارے ریسیور میں کھڑکھڑاہٹ پیدا ہو جاتی۔ بات اور جذبات دونوں ہی سرد پڑ جاتے۔
اور صاحب، ہر دم دوسروں کی مدد کا خیال رہتا۔ کہیں غمی خوشی کا سندیسہ ہمارے ذریعے ہی بھجوایا جاتا۔ اشد ضرورت میں کمک منگوانی ہوتی تو بھی ہمیں ہی استعمال کیا جاتا۔ یہ آج کل کے فون۔۔۔توبہ توبہ توبہ۔۔۔بندہ ڈوب رہا ہو، یا کہیں آگ لگی ہو، یہ مدد کے لیے کسی کو نہیں بلاتے، جھٹ سے ویڈیو بنانے لگتے ہیں۔
ہمارے ذریعے کال کرنی ہوتی تو پائی پائی کا حساب رکھتے تھے۔ مہینے کے آخر میں بل کی صورت سب کچھا چٹھا بے باق ہو جاتا۔ اب تو رات رات بھر کال کرنے کے پیکج آ گئے ہیں۔ جان تو ہماری عذاب میں ہے، موبائل پر بات کرتے جائیں گے اور ہمارے ریسیور کے ساتھ منسلک لچھے دار تار سے کھیلتے جائیں گے۔
اجی ایک روز تو عجیب واقعہ ہوا۔ گھر میں ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے بچے آئے۔۔۔ ہمیں دیکھ حیرانی سے پوچھنے لگے، "یہ کیا شے ہے؟” اندازہ کیجیے۔ کس آسانی سے ہمیں شے کہہ دیا۔ کافی سوچنے پر بھی ان بچوں کو سمجھ نہ آئی تو کسی بڑے بوڑھے کو ڈھونڈ لائے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم فون ہیں۔ بچے پوچھنے لگے ہم فون ہیں تو تصویر کہاں سے لیتے ہیں۔ گویا اب ٹیلی فون تصویریں بھی لیا کریں گے۔ اے بھیا کل کو ہانڈی روٹی بھی انہی سے پکوا لینا۔
ہائے ہمیں تو دروازے کی گھنٹی سنے بھی عرصہ ہو گیا۔ پہلے دروازے پر کوئی آتا تھا تو ڈور بیل بجتی تھی۔ آنے والا کون ہے؟ دروازہ کھلنے تک تجسس کی کیفیت رہتی۔ اب تو موبائل فون پر مسڈ کال دے دیتے ہیں۔ نہ انتظار کا مزا، نہ تجسس کی لذت۔
اب یہ جو صاحب میرے برابر میں دھرے ہیں۔ یہ الارم کلاک ہیں۔ ایک زمانے میں ان کی بھی بہت دھوم تھی۔ علی الصبح سارے گھر کو اٹھاتے۔ اب تو ان کا کام بھی موبائل فونوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اور لوگ اٹھتے کہاں ہیں، سنوز کا بٹن دبا کر دوبارہ سو جاتے ہیں۔ بار بار الارم کی آواز سن کر کان ہم دونوں کے پک جاتے ہیں۔
کیا بتائیں صاحب۔ ظالموں نے ٹارچ بھی موبائل فون میں ہی ڈال دی ہے۔ کہاں تو بڑی سی ٹارچ جھلملاتی ہوئی زرد روشنی بکھیرتی تھی، کہاں یہ چھوٹا سا موبائل فون بے رنگ سفید روشنی پھیلاتا ہے۔ نہ اجالے کی راحت نہ اندھیرے کی فرحت۔ راستہ تو مل جاتا ہو گا، منزل ضرور کھوٹی ہوتی ہو گی۔
اب اپنے کیا کیا فائدے گنوائیں۔ اپنے منہ میاں مٹھو کون بنے، ہم میں تو بیٹری بھی نہیں ڈالنا پڑتی تھی۔ آج کل کے موبائل فون تو ہر وقت چارجنگ پر ہی لگے رہتے ہیں۔ جب ہر وقت چارجنگ تار سے ہی منسلک رہتے ہو تو کاہے کو موبائل کہلواتے ہو؟
صاحب سنا ہے آپ کوئی لکھتے وکھتے بھی ہیں۔ خیر آپ ایسوں کو کون پڑھتا ہو گا، لیکن پھر بھی درخواست ہے کہ ہماری کہانی لکھیے گا۔ اور جس نے لائک یا شیئر نہ کی، اللہ کرے اس کے موبائل فون اور ڈی ایس ایل دونوں میں ہی کیڑے پڑ جائیں۔ آمین

One thought on “لینڈ لائن ٹیلی فون کی کہانی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s