مجھے تلہ گنگ سے بچاؤ

وقار ملک بھائی۔ آپ تو بڑے لیکھک ہو۔
کچھ تو اس گتھی کو سلجھاؤ۔
مجھے تلہ گنگ سے بچاؤ۔
یہ مجھ پر جادو کرتا ہے۔ چھیڑتا ہے مجھ کو۔
جب میں تلہ گنگ جاتا ہوں تو یہ گاڑی کو پر لگا دیتا ہے، مگر واپسی پر گاڑی ریس ہی نہیں پکڑتی۔ ہر موڑ پر آہستہ ہو جاتی ہے۔ میں بیک ویو مرر پر دیکھتا ہوں تو مجھے واپس بلاتا ہے۔ میرے حلق میں گولا سا پھنسا دیتا ہے۔ باہر سب سوکھا ہوتا ہے، لیکن گاڑی کی ونڈ شیلڈ دھندلا جاتی ہے۔ سڑک کنارے کھڑا ہر درخت اپنی بانہیں پھیلا دیتا ہے۔ اب آپ ہی کہو وقار بھائی، میں کس کس درخت سے لپٹوں۔
اور تو اور، یہ لاہور میں بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آتا ہے۔ جب نہر کنارے لگے کسی درخت کو سڑک کی چوڑائی پر قربان ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے تلہ گنگ کی دھریک یاد آ جاتی ہے۔ بتاؤ نا وقار بھائی ایسا کیوں ہوتا ہے۔
وقار بھائی۔ آپ تو خود تلہ گنگ کے ہو۔ مجھے بتاؤ نا۔ یہ تلہ گنگ جادو گر تو نہیں ہے؟ میں جب لاہور میں نل کھول کر دانت صاف کرتا ہوں تو یہ اپنی بارانی زمین اور زیر زمین پانی کی معدوم ہوتی سطح کے ساتھ میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے۔ مجھے نل کھول کر دانت نہیں صاف کرنے دیتا۔ جب لاہور میں کوئی اپنی گاڑی پانی کا پائپ لگا کر دھوتا ہے تو یہ تلہ گنگ مجھے شاکی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے۔ کہتا ہے بتاؤ ان لوگوں کو کہ پانی ضائع نہ کریں۔ یہاں لاہور میں بھی زیر زمین پانی کی سطح کوئی اتنی تسلی بخش نہیں۔ یہاں تمہاری گاڑی تو دھل جائے گی لیکن تلہ گنگ میں گلے سوکھ جائیں گے۔
بھائی خواتین تو یہاں لاہور میں بھی نہر کنارے کپڑے دھوتی نظر آتی ہیں لیکن ایسا جادو تلہ گنگ کی گھبیر پر ہی دیکھا کہ کپڑے پر لاٹھی پڑتے پہلے نظر آتی ہے، اور آواز کچھ دیر بعد آتی ہے۔ آؤٹ آف سنک لگتا ہے۔ جیسے کوئی تکنیکی خرابی رہ گئی ہو۔ جیسے کپڑوں کو ڈنڈوں سے کوٹتی عورتیں جھوٹ موٹ کا ناٹک کر رہی ہوں، اور اصل میں واشنگ مشینوں سے کپڑے دھونے کے سپنے دیکھتی ہوں۔
اب دیکھو تلہ گنگ کی شرارت۔ دنیا میں کہیں بھی ایک ‘وت’ سے یہاں کے باسی پہچانے جاتے ہیں۔ اچھا کہنا ہو تو ‘وت’۔ پھر کہنا ہو تو ‘وت’۔ احوال پوچھنا ہو تو کہیں گے "وت کی حال اے”۔ خبر پوچھنی ہو تو بولیں گے "وت کی ہویا”۔
اور یہ بتائیں وقار بھائی کہ میں کئی سال بعد بھی جاؤں تو گاؤں کا ہر معمر شخص مجھے کیسے پہچان جاتا ہے؟ جب کہ میں کسی سے واقف نہیں ہوتا۔ آنکھ پر اتنی موٹی عینک کے باوجود راستہ ٹٹولتے پھرتے ہیں ۔۔۔ پھر بھی کانپتی آواز میں مجھے روک کر پوچھیں گے، تسی محمود صاحب دے پتر او ناں۔ ہلا! وت کتنی چھٹی آئے او! (آپ محمود صاحب کے بیٹے ہیں نا، اچھا! پھر کتنی چھٹی آئے ہیں)۔ یہ تلہ گنگ کے بوڑھے گاؤں آئے ہر شخص سے چھٹی کی مدت کیوں پوچھتے ہیں؟ انہیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ شہری بابو بس عارضی پڑاؤ کو آیا ہے۔
وقار بھائی۔ آپ کی ڈھوک پر بھی بکریاں اگلی ٹانگیں درخت پر رکھ کر پتے کھاتی ہوں گی۔ مجھے بتائیں، کیا ان میں اور چرواہے میں کوئی ٹیلی پیتھی بھی ہوتی ہے؟ مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ چرواہا بس واپسی کا ارادہ کرے گا اور بکری خود سے واپس ہو لے گی۔
مجھے تلہ گنگ سے بچا لیں وقار بھائی۔ کہیں یہ جادو کے زور پر چرواہا نہ بن جائے۔ کہیں یہ ٹیلی پیتھی سے مجھے واپس نہ بلا لے۔

5 thoughts on “مجھے تلہ گنگ سے بچاؤ

  1. عمیر بھائی آپ تلہ گنگ کے آسیب کے زیراثر ہو۔۔ آپ تسلیم کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔۔۔ اپنی جائے پیدائش اور بچپن کے گزرے دل کوئی بڑے دل گردے والا ہی بھول سکتا ہے آپ تو ٹھہرے دھیمے اور میٹھے لہجے کے ابھرتے ہوئے صحافی۔ اپنے جذبات کا اظہار بھی کردیا اور سرزمین کے ساتھ محبت کا اظہار بھی۔ ویل ڈن ۔۔ مزید لکھئے ۔۔ ہمیں بھی تحریک ملتی ہے

    Liked by 1 person

تبصرہ کریں