اس تصویر کی کہانی

اس دن راشد صاحب نے گاڑی خریدنی تھی، لہذا پانچ لاکھ روپے گھر سے لے کر آئے تھے۔
یہ وہی راشد صاحب ہیں جو اس وقت تک ہمارے کروڑوں روپے کے مقروض ہو چکے ہیں۔ وجہ جاننے کے لیے پڑھیں، تم میرے مقروض ہو راشد
خیر ہمیں راشد صاحب کے ارادے اور نقدی کی بھنک پڑی تو اتنی زیادہ رقم کو چھونے کے لیے مچل پڑے۔ تصویر کھینچوانے کے بہانے رقم مانگی۔ پرائے پیسے ہاتھ میں آئے تو واپس کرنے کو دل نہ کرے۔ طبعیت یہ رقم غائب کرنے پر مائل ہونے لگی۔ راشد صاحب کا دھیان بٹانے کو بارہا کہا، "وہ دیکھو چڑیا۔” لیکن شاید ان کی اس جملے سے کوئی اچھی یاد وابستہ نہ تھی، چڑیا دیکھنے کے بجائے ہمیں ہی زیادہ غور سے دیکھنے لگے۔
بہرحال، قصہ تصویر کے بعد کا زیادہ دلچسپ ہے۔ دفتر سے چھٹی کے بعد راشد صاحب کو سواری درکار تھی، اور ان کی منزل ہمارے راستے میں پڑتی تھی۔ جہاں گاڑی کا سودا ہونا تھا، وہاں پہنچا کر روانہ ہونے لگے تو راشد صاحب نے روک لیا۔ گاڑی پرکھنے کے بعد قیمت پر گفت و شنید شروع ہوئی۔ گاڑی والا چار لاکھ پچاس ہزار مانگ رہا تھا، راشد صاحب چار لاکھ دینا چاہتے تھے۔ اصل رقم ابھی بھول رہا ہوں، لیکن لگ بھگ اسی اندازے کے قریب تھی۔ گفتگو رفتہ رفتہ تکرار میں ڈھل گئی۔ گاڑی والا کم کرتے کرتے چار چالیس تک آ گیا۔ راشد صاحب بڑھتے بڑھتے چار پینتیس پر اٹک گئے۔ اب پانچ ہزار روپے پر ردوقدح ہونے لگی۔ نہ یہ بڑھائیں، نہ وہ کم کرے۔ ہم منہ کھولے یہ مناقشہ دیکھتے تھے۔ دونوں اطراف کے دلائل سنتے سنتے گردن پینڈولم کی طرح ہلنے لگی۔ جب پانچ لاکھ راشد کے پاس ہیں تو پانچ ہزار پر حجت کیوں؟ بے زاری سی طاری ہونے لگی۔ جی چاہنے لگا کہ کسی طور معاملہ اختتام کو پہنچ جائے۔
ایسے میں راشد صاحب نے شاید اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کو کہہ دیا، "جو عمیر صاحب کہیں، وہی قیمت فائنل کر لیتے ہیں۔”
ابھی فریق مخالف انکار میں گردن ہلانے کو ہی تھا کہ مارے جھنجھلاہٹ ہمارے منہ سے نکل گیا، "چار چالیس میں فائنل کر دیں۔”
فریق مخالف نے بے یقینی اور راشد نے بے بسی سے ہمیں دیکھا۔ اپنی ہی کہی بات سے پھر نہ سکتے تھے۔۔۔ تھکے تھکے انداز سے رقم گن کر دی اور گاڑی لے کر چلے گئے۔
آخر پانچ ہزار کی معمولی رقم پر اتنا جھگڑا کرنے کی وجہ کیا تھی؟ (غور فرمائیے، پانچ لاکھ کو صرف ایک بار چھونے سے ہمیں پانچ ہزار کی رقم معمولی لگنے لگی تھی)۔ ہم نے عقدہ سلجھانے کے لیے راشد صاحب کو فون کیا۔ کہنے لگے انہوں نے یہ گاڑی آگے فروخت کرنے کی نیت سے لی تھی۔ اور سودے میں انہیں بھی چار پانچ ہزار ہی بچنا تھا۔ اسی لیے اتنی بحث کی۔
خیر صاحب، راشد صاحب نے تو سبق حاصل کر لیا ہو گا۔ آپ بھی پلے سے باند لیجیے۔۔۔ رقم کی لین دین پر کسی نا تجربہ کار کو ساتھ نہ رکھیے۔ اور وہ ساتھ آ ہی گیا ہے تو اس سے رائے کبھی نہ لیجیے۔

پس تحریر: تحریر پسند آئی تو لائک وغیرہ ضرور کیجیے گا، تاکہ عقل کی بات اوروں تک بھی پہنچے

3 thoughts on “اس تصویر کی کہانی

تبصرہ کریں