میری کتابوں کی ہجرت

یونیورسٹی کے ایام، ہوسٹل کے کمرے میں ایک الماری ملتی۔ اسی میں اسباب بھی رکھو اور کتابیں بھی۔ ڈھیر سا لگ جاتا۔ بس اوپر والی کتاب دسترس میں رہتی باقی ڈھیر میں دفن ہو جاتیں۔ ہوسٹل سے فراغت کے بعد ایک کٹیا کرائے پر لی تو سامان رکھنے کو سیکنڈ ہینڈ لوہے کی الماری بھی خریدی۔ اس میں خانے بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف کپڑے ٹانگو، دوسرے میں دیگر مال و متاع۔ اب کتابیں کسی قدر ترتیب سے رکھنے کی صورت ہوئی۔۔۔ لیکن بے چاری الماری کے خانے کہاں تک ساتھ دیتے۔ پھر حالات ویسے کے ویسے۔ جو کتابیں نہ پڑھی ہوتیں، ان کی تہہ سامنے لگاتے، باقیوں کو پیچھے دھکیل دیتے۔ کبھی کبھار غلطی سے ان پڑھی کتاب پس منظر میں چلی جاتی تو سراغ ملتا نہ یاد رہتا۔ پچھلی صفوں میں موجود کسی کتاب کا باب پڑھنے کی ضرورت پڑتی تو پہاڑ کھودنے جیسی مشقت کرنا پڑتی۔ اور کتابیں بھی کوئی بہت زیادہ نہ تھیں۔۔۔ ناول اور ڈائجسٹ ملا کر چالیس پچاس کے لگ بھگ۔
شادی کے بعد ہم نے کتابوں کے لیے باقاعدہ الماری بنوانے کا فیصلہ کیا۔ کمرے کا ایک گوشہ منتخب کیا، اس کی پیمائش کے مطابق، دو فٹ چوڑی، چھ فٹ لمبی، پانچ خانوں والی الماری تیار ہو کر آ گئی۔ اب تو جناب موضوعات کے مطابق کتابوں کی کانٹ چھانٹ ہوئی۔ سوانح الگ خانے میں دھری گئیں، حالات حاضرہ کی کتابوں کے الگ خانہ مخصوص ہوا۔ ایک خانے میں ڈائجسٹ رکھے گئے تو دوسرے میں جاسوسی ناول۔ مزاح سے متعلقہ کتب دائیں سے بائیں چنی گئیں اور شاعری کی کتابیں بائیں سے دائیں۔ رسالے عمودی رخ اکٹھے کیے گئے تو باقی بچی جگہ پر چھوٹی کتابیں نگینے کی طرح پیوست ہو گئیں۔ سب سے اوپر والے خانے میں صرف انہیں رکھے رہنے کی اجازت ملی جو ہم نے پڑھی نہ تھیں۔
یہ بندوبست بہت راس آیا، تمام کتابیں نظروں کے سامنے رہتیں۔ جس پر دل آتا، ہاتھ بڑھاتے اور پہلو میں لٹا لیتے۔ اتنے میں ننھے میاں نے گھسٹ گھسٹ کر چلنا شروع کیا۔ ایک روز کیا دیکھتے ہیں، سب سے نیچے والے خانے پر حملہ آور ہیں، کتابیں نکال کر فرش پر ڈھیر کر دی ہیں اور ان کے اوراق سے کشتی جاری ہے۔ جز بز ہوئے، نگرانی سخت کر دی، لیکن وہ حملہ آور ہونے کا کوئی موقع ڈھونڈ ہی نکالتے۔
آخر اپنی اور کتابوں کی بہتری اسی میں نظر آئی کہ نیچے والا خانہ خالی کر کے انہی کے حوالے کر دیا جائے۔ اب ایک ہی خانے میں متعدد موضوعات شیر و شکر ہو گئے۔ کہیں اگاتھا کرسٹی ڈپٹی نذیر احمد کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہیں، کہیں گاندھی جی امجد اسلام امجد کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد یہ اہتمام بھی ناکام ہوتا معلوم ہوا۔ ننھے میاں سہارے سے کھڑا ہونے لگے تھے۔ نیچے کے دونوں خانے ان کی دست رس میں آ گئے تھے۔ لہذا کتابوں کو یہاں سے بھی دیس نکالا ملا۔ اب کی بار انہیں اوپر کے خانوں میں نہیں سمویا جا سکتا تھا، لہذا اوپر کی منزل میں اسی لوہے کی الماری میں ٹھونس دیا گیا۔ جب وہ مزید بڑے ہوئے تو ہاتھ تیسرے خانے تک جا پہنچا، اور ایڑیاں اٹھاتے تو چوتھے کی بھی تلاشی لے لیتے۔ ویسے بھی کتابوں کے آگے ان کے استعمال کی چیزوں کا ڈھیر لگنے لگا تھا۔ عبداللہ حسین دودھ کے ڈبے پیچھے جا چھپے تھے۔ اشفاق احمد کا زاویہ پکڑنے کے لیے خارش والی کریم کا زاویہ بدلنا پڑتا۔
چنانچہ ایک دن ہم نے پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پانچ میں سے چار خانے انہی کے حوالے کر دیے، کتابوں کو دیس نکالا دے دیا۔ اب نیچے والا خانہ بالکل خالی ہے۔ نیچے سے دوسرے میں ایک اونٹ ہے جس کی دم کھینچو تو بھاگ کر دیوار کو ٹکر مارتا ہے۔ اس سے اوپر والے میں پیلے رنگ کی بڑی سے بطخ ہمیں گھورا کرتی ہے۔ ہم اس کی نظروں سے گھبرا کر کسی کتاب کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہاڑ کھودنے جیسی مشقت کرنا پڑتی ہے۔ ہم کوئی فرہاد تو ہیں نہیں، کوشش ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

4 thoughts on “میری کتابوں کی ہجرت

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s