آم ہو یا جام ہو

آپ بھی کہیں گے گھسا پٹا مضمون پھر سے باندھنے لگے۔ صاحب ہمارے سامنے تو ہزار بار آم کا ذکر آئے تو بھی جی نہ اکتائے۔ آپ کے لیے سرسوں کے پھول بہار کی علامت ہوتے ہوں گے۔ ہم تو جب ریڑھیوں پر پیلے پیلے آم رکھے دیکھتے ہیں تب سمجھتے ہیں کہ بہار آئی ہے۔
گرمیوں کی تپتی دوپہر ہو، کاٹے نہ کٹ رہی ہو۔ ایسے میں چند کلو آم میسر آجائیں تو جام کا لطف آ جائے۔
ذرا سوچیے، طرح دار، سجیلا آم کس بانکپن کے ساتھ ریڑھی پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ اوپر سے پھلوں کا بادشاہ بھی کہلاتا ہے۔ چھونے سے پہلے فرشی سلام کو جی چاہے۔ آپ ریڑھی والے سے اپنی پسند کا تلوانا چاہیں گے، وہ ہاتھ نہ لگانے دے گا۔ جھٹ پٹ چند دانے تول کر آپ کو تھما دے گا۔ گھر آ کر معلوم ہو گا، ریڑھی پر جو نکھرے نکھرے پیلے آم دیکھے تھے، ان میں سے چند ہی آپ کے حصے میں آئے ہیں، باقی کے جو ہیں وہ داغدار ہیں اور پلپلے ہیں۔

خیر اس میں بھی سہولت ہے، جو کھانے سے بچ گئے، وہ ملک شیک بنانے کے کام آئیں گے۔ آگے آپ کی مرضی ہے، چاہیں تو فریج میں رکھ کر ٹھنڈا کریں۔ ورنہ بالٹی میں پانی اور برف ڈالیں اور آم سینت چھوڑیں۔ ٹھنڈ مٹھاس کی تاثیر بھی بڑھا دے گی۔
کھانے کے بھی مراحل ہیں۔۔۔ قاشیں کاٹ کر کھائیں گے تو ریشے بھی دانتوں میں پھنس جائیں گے، گھٹلی سے نبرد آزما ہونے میں ہاتھ اور منہ دونوں لتھڑ جائیں گے۔ دوسری صورت یہ کہ کوئی دوسرا آم کو ٹکڑوں کی صورت کاٹ چھوڑے۔ آپ اطمینان سے کانٹے میں پروسیں اور زندگی کا مزہ لیں۔ ابھی آم کا ٹکڑا دہن سے کچھ فاصلے پر ہی ہو گا لیکن شیرینی پہلے ہی گھلنے لگے گی۔
ہمیں آم کھانے کا تو بہت تجربہ ہے لیکن خریدنے کا تجربہ عام سا ہے۔ یہ تک نہیں پہچان پاتے کہ کون سی قسم کا ہے۔ فلاں کاٹ کے کھانے والا ہے یا کھا کر کاٹنے والا۔ بس آم کھانے سے غرض ہے، قسمیں گننے سے نہیں۔
حضرت ہمیں تو یقین ہے، نیوٹن کے سر پر سیب کے بجائے آم گرا ہوتا تو اسے کھانے کے علاوہ کچھ اور نہ سوجھتا۔ یوں کشش ثقل کا قانون ہی وجود میں نہ آتا، اور ہم آم کھانے کے بعد اڑے اڑے پھرتے۔

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s