ورزش کی غرض سے سائیکل پر دفتر آتے جاتے ہیں۔ اہل لاہور نے سائیکل سواری کا شغل ترک ہی کر رکھا ہے۔ چھ سے آٹھ کلومیٹر طویل سفر میں کبھی کبھار ہی کوئی دوسرا سائیکل سوار ملتا ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ راستے میں کوئی سائیکل سوار ملا، ہم اس سے آگے نکلے، یا اس نے ہمیں اوور ٹیک کیا تو خواہ مخواہ کا مقابلہ سا شروع ہو گیا۔ ایک تو اس میں لطف رہتا ہے، دوسرا مسابقت میں راستہ نسبتاً جلدی کٹ جاتا ہے۔
اب یہ کوئی باقاعدہ ریس تو ہوتی نہیں۔ کوئی سائیکل سوار آپ کے قریب سے گزرا، آپ نے اس کی رفتار سے حسد محسوس کیا یا ایسے ہی اپنا امتحان لینا چاہا ۔۔۔ تو تیزی سے پیڈل مارتے ہوئے اس سے آگے بڑھ گئے۔ ذرا آگے جا کر آپ دھیمے پڑے یا اس نے رفتار پکڑی تو آپ سے آگے نکل گیا۔
پھر شروع ہوئی مقابلہ بازی۔ دونوں کی رفتار میں تیزی آ گئی۔۔۔ زور زور سے پیڈل مارے جا رہے ہیں، پسینے میں شرابور ہیں، کبھی ایک سبقت لے جاتا ہے کبھی دوسرا۔۔۔ مقابلہ جاری رہتا ہے جب تک کہ کسی ایک کا راستہ جدا نہ ہو جائے۔
ابھی پچھلے دنوں ہم ایسی ہی ایک ریس ہارے۔ وہ سائیکل سوار صاحب ہمارے مقابلے میں کمال کا اسٹیمینا رکھتے تھے۔ کئی کلومیٹر طویل ریس کے دوران بس ایک بار ہی ہم نے انہیں زیر کیا، وگرنہ وہ حاوی رہے۔ ہم آگے نکلنے کو رفتار بڑھاتے تو وہ بھی مزید تیز ہو جاتے۔ رفتہ رفتہ درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا۔۔۔ اور بڑھتے بڑھتے اتنا ہو گیا کہ ہم نے ہمت ہار دی۔
اس کے کچھ روز بعد، ایسے ہی چلتے چلتے ایک اور سائیکل سوار سے ریس لگ گئی۔ تازہ شکست کے زخم ہرے تھے، اس بار ہم نے مختلف حکمت عملی اپنائی۔ ہم نے فریق مخالف کو زیر نہ کیا، اپنی سانسیں اور اسٹیمینا بحال رکھتے ہوئے اسے کڑا وقت دینے لگے۔ یعنی ہم اس سے آگے تو نہ نکلے لیکن وہ جب پیڈل مار مار کر ہلکان ہو جاتا، اور سستانے سے پہلے فریق مخالف کی پوزیشن کا اندازہ لگانے کو پیچھے دیکھتا تو ہمیں بالکل ساتھ پاتا۔ اسے لگتا کہ ہم آگے نکلنے ہی والے ہیں لہذا مزید زور سے پیڈل مارنے لگتا اور مزید تھک جاتا۔ اس حکمت عملی کے تحت تین سے چار کلومیٹر تک ہم نے اسے تھکائے رکھا اور زیر ہونے کے خوف میں مبتلا رکھا۔۔۔ جب ہمیں لگا کہ وہ خاصا تھک چکا ہے اور آگلے چوک سے شاید ہمارے راستے بھی جدا ہو جائیں گے تو ہم تیزی سے پیڈل مارتے ہوئے پہلے اس کے برابر آئے، پھر آگے نکلے اور پھر بہت آگے نکل گئے۔ جو توانائی ہم نے سنبھال کر رکھی تھی وہ تمام کی تمام صرف کر دی اور اپنے تئیں اسے بڑے مارجن سے ہرا دیا۔
ان غیر رسمی سی سائیکل ریسوں سے ہم نے کئی سبق سیکھے ہیں۔۔۔
ایک تو یہ کہ مقابلہ جیتنے کے لیے مقابلے میں شامل رہنا ضروری ہے۔
مقابلے میں شامل رہنے کے لیے کوشش کرتے رہیں لیکن حتمی ہدف تک پہنچنے کے لیے توانائیاں بچا کر رکھیں۔
فاتح وہی جو وننگ لائن تک پہنچے۔ جب آپ جیت جاتے ہیں تو کوئی آپ سے یہ نہیں کہے گا۔۔۔ سارے راستے تو تم پیچھے ہی رہے۔۔۔ اب جیت بھی گئے ہو تو کیا فائدہ۔ نہ ہی ہارنے پر کوئی آپ سے یہ کہے گا۔۔۔ یار سارے راستے تو تم ہی آگے تھے نا، وننگ لائن تک دوسرا تم سے پہلے پہنچ بھی گیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔
جنگ جیتنے کے لیے چھوٹی موٹی لڑائیاں ہارنی پڑتی ہیں۔
فتح آپ کی تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
شکست کبھی کبھار آپ کی خوبیوں کو بھی خامیوں میں بدل دیتی ہے۔
اور۔۔۔ جب ریس لگتی ہے۔۔۔۔ تو کبھی آپ جیت جاتے ہیں۔۔۔ کبھی آپ سیکھ جاتے ہیں۔
پس نوشت: اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی، تو یہ بھی ضرور آئے گی۔۔۔ خود سے چار معاہدے کرو، اور اپنی زندگی جیو۔
عمدہ لکھا ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ مجھ سے سائیکل ریس آسانی سے ہار جائیں گے۔۔۔۔۔
پسند کریںLiked by 1 person