رعایت اللہ فاروقی صاحب صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کچھ دن قبل انہوں نے فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی، عنوان تھا۔۔۔ عورت اور مرد کی عزت کا فرق۔
رعایت اللہ صاحب کے مطابق ہماری بہنوں اور بیٹیوں میں یہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عزت ایک بیڑی ہے، اگر مرد منہ کالا کرتا ہے تو خاتون کو بھی منہ کالا کرنے کی آزادی دی جائے۔
عاجز کو اس پوسٹ کے مندرجات سے اختلاف ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا سوچتا ہو کہ مرد منہ کالا کرتا ہے تو عورت کو بھی ایسا کرنے کی آزادی دی جائے۔ ہماری رائے میں اس کا تعلق آزادی سے نہیں، ذمہ داری سے ہے۔ یعنی مرد منہ کالا کرتا ہے تو بھی عورت کو ہی ذمہ دار کیوں قرار دیا جائے۔ اکثر ان معاملات میں ذمہ داری کا تمام بوجھ عورت پر ڈال کر مرد سے وہ رویہ نہیں رکھا جاتا جو عورت سے رکھا جاتا ہے۔ کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ غیرت کے نام پر باپ نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔
آگے چل کر رعایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
"یعنی اگر مرد بےغیرت ہے تو عورت کو بھی بےغیرت ہونا چاہیے”
ہماری نظر میں اس استدلال کو یوں بیان کیا جائے تو زیادہ مناسب رہے
"عورت بے غیرت ہے تو اس معاملے میں برابر کا کردار ادا کرنے والا مرد بے غیرت کیوں نہیں؟”
آپ لکھتے ہیں کہ مرد عزت کماتا ہے، عملی زندگی کی سختیاں سہتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، دفتری سازشوں کا مقابلہ کرتا ہے، سینیئرز کی کھری کھری سنتا ہے اور یوں پچیس سے تیس سال کی عمر میں کچھ عزت کماتا ہے۔ اس کے برخلاف عورت بالغ ہوتے ہی عزت سے سرفراز ہو جاتی ہے۔
مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہو۔۔۔اگر ایک بالغ عورت کو دیکھتے ہی تمام مرد اپنی نگاہیں جھکا لیتے ہوں، اسے اپنی ہوس ناک نظروں سے نہ تولتے ہوں، یہ سامنے سے آ رہی ہو تو راستہ چھوڑ دیتے ہوں، اس پر جملے نہ کستے ہوں۔
ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ ایک عزت دار، با کردار اور شرم و حیا رکھنے والا مرد ہی عورت کی عزت کرتا ہے۔ اوراس میں بھی عمر کی قید نہیں۔ اگر ایک مرد کو گھر سے ہی عورت کی عزت کرنا سکھایا گیا ہے تو کرے گا چاہے اس کی عمر بیس سال ہو۔ ورنہ ساٹھ سال کا ہو کر بھی نہ کرے گا۔
شاید رعایت اللہ صاحب کا یہ مقصد نہ ہو گا، لیکن ہمیں ان کے دلائل سے لگا کہ عزت بچانے کی ذمہ داری صرف اور صرف عورت پر ہے۔ جب کہ مرد کی عزت ضائع ہو بھی جائے تو اس کے دوبارہ کمانے کا آپشن موجود ہے؟
پوسٹ میں لکھا ہے ۔۔۔ آپ ایسی شریف عورت نہیں دکھا سکتے جس کی عزت کے دس افراد قائل ہوں اور دس انکاری ہوں۔ تو رعایت اللہ صاحب! شریف عورت کے لیے کیا آپ نے یا معاشرے نے ایک معیار مقرر کر رکھا ہے؟ اگر باکردار ہے اور ڈوپٹہ نہیں اوڑھتی تو اٹھانے والے شرافت پر انگلی اٹھا دیتے ہیں، ڈوپٹہ اوڑھتی ہے لیکن چہرہ نہیں ڈھانپتی تو ڈھونڈنے والے دال میں کالا دھونڈ لیتے ہیں۔ بلکہ ان گنہ گار کانوں نے تو برقع میں لپٹی خواتین کے بارے میں بھی اول فول سنا ہے۔
لہذا ہمیں آپ کی اس دلیل سے اختلاف ہے کہ ہر شریف عورت کی عزت غیر متنازعہ ہے۔ بلکہ مجھے تو اس بات سے بھی اختلاف ہے کہ عورت کو شریف یا غیر شریف ہونے کے خانوں میں بانٹا جائے۔ عورت کی عزت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ مرد کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو لیبل کرے یا کسی کو عزت کے قابل نہ سمجھے۔