براڈکاسٹر آغا ناصر صاحب کی کتاب گم شدہ لوگ زیر مطالعہ ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ایک قصہ پڑھنے والا ہے ۔
1963ء میں اس وقت کے صدر ایوب خان دارلحکومت کی اسلام آباد منتقلی پر ایک ریڈیو دستاویزی پروگرام نشر کرانا چاہتے تھے۔ ان دنوں ٹیلی وژن کا وجود نہیں تھا۔۔۔ ریڈیو ہی ابلاغ کا موثر ذریعہ مانا جاتا تھا۔
پروگرام تیار کرنے کی ذمہ داری آغا ناصر صاحب کو سونپی گئی۔ زیر تعمیر اسلام آباد میں پروگرام کی ریکارڈنگ کرتے ہوئے انہیں مکینوں کے انٹرویوز میں بہت مشکل ہوئی۔
دراصل وہاں کے مکین تقریباً تمام ہی سرکاری ملازمین تھے جو کراچی سے تبادلہ ہو کر آئے تھے۔ وہ کسی صورت نئے شہر کی تعریف کو تیار نہیں تھے۔ آغا صاحب جب اسلام آباد کی زندگی، طرز بودوباش اور موسم وغیرہ کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتے، وہ انہیں لعن طعن کرنے لگتے۔ سب سے زیادہ مشکل بنگالیوں کے انٹرویو میں ہوئی۔ وہ اپنے مخصوص لہجہ میں بگڑ کر بولتے، "شالا ہم کو ادھر ذنگل میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب پنزابی لوگوں کا کام ہے۔”
مشکل کا حل یوں نکالا گیا کہ راولپنڈی ریڈیو اسٹیشن ملازمین کے تاثرات ریکارڈ کر لیے گئے۔ ظاہر ہے وہ سب ریڈیو کے سرکاری ملازم تھے (اور کسی حد تک آغا ناصر کے تابع بھی)، لہذا جو ان سے کہلوایا گیا، انہوں نے کہا۔ راولپنڈی میں رہنے والوں نے اسلام آباد کو دنیا کا سب سے خوبصورت اور پرفضا شہر کہا۔ ایک بنگالی ریڈیو ملازم نے تو یہ بھی کہہ دیا، "ہم کو تو اسلام آباد پر زنت (جنت) کا شبہ ہوتا ہے۔”
آخری انٹرویو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ڈبلیو اے شیخ کا ہوا۔ آغا ناصر لکھتے ہیں کہ شیخ صاحب وہ واحد فرد تھے جنہوں نے صدق دل سے اسلام آباد کی تعریف کی۔
انٹرویو کے بعد ڈبلیو اے شیخ نے ہزار ہزار گز پلاٹ کے دو الاٹ منٹ فارم آغا ناصر اور اسکرپٹ رائٹر ریاض فرشوری کے سامنے رکھے۔ وہ چھ نمبر سیکٹر میں دونوں کو ایک ایک ایک پلاٹ دینا چاہتے تھے۔ یہ سن کر آغا ناصر اور ریاض فرشوری ہنس پڑے۔ ریاض فرشوری نے خود کو ایک چھوٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا، "واہ شیخ صاحب۔۔۔ آپ ہمیں اس قدر ۔۔ سمجھتے ہیں کہ اس جنگل بیابان میں زمین دے رہے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں کہ زمین خریدنے کا سوچیں۔”
شیخ صاحب نے بہت سمجھایا کہ زمین بہت سستی ہے، صرف چھ ہزار روپے میں ایک ہزار گز کا پلاٹ ملے گا، اور وہ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے آسان قسطوں پر ادائیگی کی سہولت دیں گے۔ لیکن آغا ناصر اور ریاض فرشوری نے ان کی بات نہ مانی۔ دونوں نے فارم ان کی میز پر چھوڑے اور ہنستے ہوئے باہر نکل گئے۔