ہماری یونیورسٹی میں ایک ضمیر بھائی (فرضی نام) ہوا کرتے تھے۔ قد تو چھوٹا سا تھا لیکن کسرت وغیرہ کی وجہ سے ڈیل ڈول پہلوانوں والا بنا رکھا تھا۔ بات چیت بھی کرختگی سے کرتے، جو ارادتاً نہیں، عادتاً ہوتی۔ لہذا دیکھنے اور برتنے میں ضمیر بھائی خوفناک اور لڑاکا لگتے۔ واقفیت بڑھتی تو معلوم ہوتا درشتی کے سانچے میں ہم سا ہی انسان چھپا ہے۔ جو ہنستا مسکراتا ہے، قہقہے لگتا ہے، اداس بھی ہوتا ہے۔
ضمیر بھائی ہمارے روم میٹ کے دوست تھے۔ اس ناطے وہ کبھی کبھار ہمارے کمرے میں بھی آتے۔ سگریٹ پیتے، گپ لگاتے، چلے جاتے۔ ان دنوں شہر میں رہنے والوں کے لیے ہاسٹل میں رات گزارنا بڑی تفریح ہوا کرتی تھی۔ قالین بچھے ہیں، چار لوگوں کی گنجائش والے کمرے میں دس افراد ٹھنسے ہیں۔ ہاسٹل کی کینٹین سے چائے، پراٹھے، ساگ، آملیٹ، سینڈوچ۔۔۔ سبھی کچھ منگوا لیا گیا ہے۔ لگاتار قہقہے لگ رہے ہیں، درمیان میں کہیں کہیں کھانے پینے اور گفتگو کے لیے بھی وقت نکالا جا رہا ہے۔ کسی کو نیند آئی تو وہ وہیں لڑھک گیا، باقیوں کو کھپانے کےلیے دوسرے کمروں میں بھیجا جا رہا ہے۔
اس روز معمول کے برعکس ضمیر بھائی کچھ اداس تھے۔ نہ تو قہقہے لگانے میں ساتھ دیا، نہ کھانے میں رغبت دکھائی۔ ہمارے کمرے میں ایک فرد کی جگہ خالی تھی، لہذا رات گزارنے کے لیے انہیں ہمارے ہاں بھیج دیا گیا۔ ہمیں سردیوں کی راتوں میں لحاف اوڑھ کر ناول پڑھنے کا لطف آتا ہے۔ ہم تو اسی تفریح میں مگن ہو گئے۔ ضمیر بھائی نے چارپائی پر لیٹ کر سگریٹ سلگا لیا۔
ہم ان کی خاموشی پر کچھ کھٹکے ضرور لیکن ناول بہرحال اس صورتحال سے زیادہ دلچسپ تھا۔ ہم ناول پڑھتے گئے اور ضمیر بھائی ایک کے بعد دوسرا سگریٹ ختم کرتے گئے۔ پورا کمرہ دھویں سے بھر گیا۔ ہمیں کچھ تجسس ہوا۔ غور کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی تیرتی نظر آئی۔ ہمیں متوجہ پا کر بتانے لگے ان کا بریک اپ ہو گیا ہے۔ ہم نے کھوکھلی ہمدردی کا اظہار کیا۔۔۔ ضمیر بھائی نے سگریٹ کا طویل کش لیا اور منہ سے دھواں چھوڑتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ تکلیف تو بہت ہے لیکن کم بخت مزا بڑا آ رہا ہے۔