ایک جگہ پر چار لوگ رہتے تھے، ان میں سے دو چوہے تھے۔۔اور دو انہی جتنے چھوٹے چھوٹے انسان ۔۔چوہوں کے نام تھے سنف اور سکری اورانسانوں کے نام تھے ہیم اور ہاء۔۔۔
چاروں روزانہ اپنے کھانے کے لیے پنیر تلاش کرتے
چوہے چونکہ بے عقل تھے، اس لیے انہیں جس قسم کا پنیر مل جاتا وہ کھا لیتے
انسان چونکہ عقل مند تھے، انہیں ایک خاص قسم کے پنیر کی تلاش تھی۔ ان کا خیال تھا وہ خاص پنیر ملا تو ہی انہیں خوشی ملے گی۔
سنف اور سکری منہ اٹھا کر چل پڑتے۔ کہیں پنیر مل جاتا اور کہیں ناکامی ملتی۔
ہیم اور ہا خاص قسم کا پنیر تلاش کرنے کے منصوبے بناتے رہتے اور ناکامی پر بہت اداس ہو جاتے
آخر ایک دن چاروں کو ایک جگہ ملی۔۔۔ جہاں پنیر کا خزانہ پڑا تھا
اب چاروں روزانہ یہاں آتے اور جی بھر کر پنیر کھاتے
ہیم اور ہا آہستہ آہستہ سست پڑتے گئے۔ وہ آرام سے اٹھتے، تیار ہوتے اور پنیر کے خزانے پر آتے۔ ان کا خیال تھا کہ پنیر کا یہ خزانہ ہمیشہ یہاں رہے گا۔ وہ سمجھتے تھے پنیر حاصل کرنے کے لیے ان کی کوشش کا صلہ انہیں مل گیا ہے اور اب ان کی زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔
ایک دن وہ پہنچے تو معلوم ہوا پنیر کا خزانہ ختم ہو چکا تھا۔ چوہوں نے پہلے ہی اس صورتحال کا اندازہ کر لیا تھا کہ پنیر ختم ہو رہا ہے۔ لہذا انہوں نے خزانہ خالی دیکھا تو پروا نہ کی اورمزید پنیر کی تلاش میں دوڑ پڑے۔
انہوں نے زیادہ نہیں سوچا۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ خزانے کی صورتحال بدل چکی ہے، لہذا انہیں بھی بدلنا ہو گا۔
لیکن انسانوں کو بہت رنج ہوا۔ ہیم چلایا۔۔۔ میرا پنیر کہاں گیا؟
وہ دونوں بہت دکھی تھے۔ انہیں زندگی کی خوشی کے لیے پنیر چاہیے تھا جو اب وہاں نہ رہا تھا۔ پنیر بہت اہم تھا۔ انہوں نے وہیں تلاش کرنا شروع کر دیا کہ شاید اچانک کہیں سے پنیر انہیں مل جائے گا۔ انہیں یقین نہ آتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ اگلے دن وہ پھر اسی جگہ آئے لیکن پنیر نہ ملا۔
ہیم اور ہاء تو بیٹھ کر پنیر حاصل کرنے کی طریقے سوچ رہے تھے۔ چوہے دوڑ دھوپ کر کے مزید پنیر تلاش کر رہے تھے۔ اور ایک دن انہیں پنیر کا ایک اور خزانہ مل گیا۔
دوسری طرف ۔۔ہیم اور ہاء بیٹھ کر سوچتے سوچتے تنگ آ چکے تھے لیکن پنیر ملتا ہی نہ تھا۔ ایک دن ہاء نے کہا آؤ یہاں سے کہیں اور چلتے ہیں اور پنیر تلاش کرتے ہیں۔
ہیم نے کہا، نہیں یہاں ہم محفوظ ہیں۔ اگر ہم باہر نکلے اور وہاں پنیر نہ ملا تو پھر کیا ہو گا؟
لہذا وہ وہیں بیٹھے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ پنیر مل جائے گا۔
آخر ایک دن ہاء نے کہہ دیا کہ وہ پنیر کی تلاش میں نکل رہا ہے۔ ہیم نے اس کا ساتھ نہ دیا اور وہیں بیٹھا رہا۔
یوں ہاء اکیلے ہی نکل کھڑا ہوا۔ کئی جگہ اسے ناکامی ہوئی۔ کئی جگہ اسے پرانا باسی پنیر ملا۔ لیکن وہ تلاش میں لگا رہا۔
ایک بار اسے اچھا پنیر ملا تو وہ ہیم کے لیے بھی لے کر گیا۔ لیکن ہیم نے کہا اسے خزانے والا پنیر ہی چاہیے۔
ہاء نے خود سے سوچا، جب آپ اپنی سوچ بدلتے ہیں، تبھی اپنا عمل بدلتے ہیں
چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کا علم ہو جائے تو بندہ بڑی تبدیلی کےلیے تیار ہو جاتا ہے
ہاء کوشش کرتا رہا کرتا رہا۔۔ اور آخر کار وہ پنیر کے ایک خزانے تک پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر اس نے خود سے کہا
تبدیلی تو آتی ہے۔۔۔ پنیر ایک سا نہیں رہتا
ہمیں تبدیلی کا اندازہ لگا لینا چاہیے۔۔۔
اور خود کو تبدیل ہونے کےلیے تیار رکھنا چاہیے
اور تبدیلی کا مزا لینا چاہیے
اب وہ پنیر کے نئے خزانے میں مزے کر رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ خزانے سے باہر نکل کر مزید خزانوں کی تلاش بھی کرتا ہے
یہ کہانی میں نے آپ کو سپنسر جانسن کی کتاب
Who moved my cheese
سے سنائی ہے۔کہانی سے سبق ملتا ہے کہ تبدیلی آ کر رہنی ہے۔ انسان کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے، اور تبدیلی سے پریشان ہونے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔