مقدس پانی کب ملے گا؟

صبح پانچ بجے سفر کا آغاز کیا تو اندازہ نہ تھا دھند یوں آن دبوچے گی۔ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے موٹر وے کا راستہ پکڑا تو بادل سے آ گئے۔ سوچا کسی فیکٹری کا دھواں ہو گا۔ سر جھٹک کر آگے بڑھے تو پھر سب صاف۔ اس سے پہلے گھر سے نکلنے اور اسٹور سے خریداری کے بعد معمولی سا حادثہ کرا بیٹھے تھے۔ گاڑی میں چار پانچ نفوس بیٹھیں تو سردیوں میں شیشے دھندلا جاتے ہیں۔ پیچھے موجود کھمبا نظر ہی نہ آیا۔ تصادم کے بعد اتر کر دیکھا تو زیادہ نقصان نہ تھا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔
خالی ٹینکی کے باوجود اطمینان تھا کہ موٹر وے ٹال پلازے سے پہلے ایک پیٹرول پمپ ہے۔ لیکن دھند کا ایسا ہلہ آیا کہ پیٹرول پمپ نظر ہی نہ آیا۔ واپسی کی ٹھانی، دیگر سوار بھی متفق ہو گئے۔۔۔ لیکن یونہی، اپنے عذر کی سند کی خاطر، ٹال پلازے پر ٹوکن دینے والے صاحب سے پوچھ لیا۔ وہ کہنے لگے دھند تو بس یہیں تک ہے۔
ان کے کہے میں آ کر ہم نے بحر دھند میں گاڑی دوڑا دی۔ صاحب، دوڑائی کہاں، کچھ نظر آتا تو رفتار پر پاؤں رکھتے۔ سڑک پر کھنچی سفید لکیر کے سہارے چلنے لگے اور جو دعائیں یاد تھیں وہ پڑھنے لگے۔ کبھی کبھار کوئی بس بھی انتہائی تیز رفتاری سے گزری، کچھ دیر اس کی سرخ بتیوں کے پیچھے چلے، پھر اسے بھی کھو دیا۔ ٹی وی پر صفر حد نگاہ کی خبریں چلاتے تھے۔ دیکھ بھی لی۔
ساڑھے چھ بجے کے قریب کچھ کچھ اجالا ہوا، سات بجے تک دھند چھٹ چکی تھی، سہما سہما سورج جھانک رہا تھا، پوچھتا تھا اب تو کرنوں کا راستہ نہ روکو گے؟ ہم نے کہا بھیا ہم تو خود مسافر ہیں، کاتب تقدیر کے لکھے پر چلنے والے۔ ہاں تمہاری تصویر ضرور کھینچیں گے

img_20170128_065904

کھیوڑہ میں نمک کی کانیں ہماری منزل تھیں۔ نو ساڑھے نو بجے کے آس پاس وہاں پہنچے تو پارکنگ میں ہم سے پہلے صرف ایک ہی گاڑی موجود تھی۔ نمک کی کان میں نمک ہو کر نکلے تو گھڑی شاید ساڑھے گیارہ بجا رہی تھی۔ اس وقت غول کے غول بڑھے چلے آ رہے تھے۔ ہم نے جلدی پہنچنے پر خود کو داد دی، ہجوم میں تو ڈھنگ سے کچھ نہ دیکھا جاتا۔ ایک عزیز چوآ سیدن شاہ میں رہتے ہیں۔ ان سے رابطہ ہوا تو کہنے لگے، آپ ہم سے فقط اٹھارہ کلومیٹر دور ہیں، یہاں کا چکر بھی لگا لیں۔ کچھ ان کی تکلیف کا خیال، کچھ واپس جانے کی جلدی، ان سے معذرت کر لی لیکن پارکنگ سے نکلنے تک نیت بدل چکی تھی۔۔۔ صرف اٹھارہ کلومیٹر، ارے یہ تو کچھ بھی نہیں، پھر کٹاس کا مندر بھی تو قریب ہی ہے، لگے ہاتھوں وہ بھی دیکھتے چلیں گے۔
گاڑی اس راہ پر ڈالی تو معلوم ہوا پہاڑی راستوں پر اٹھارہ کلو میٹر بھی پچاس کلومیٹر کے برابر ہوتے ہیں۔ نہ جانے کتنے وقت کے بعد چوآ سیدن شاہ پہنچے تو واپس جانے کی فکر اس سے بھی سوا ہو چکی تھی۔ عزیز خاطر مدارت میں زحمت کریں گے، ہمیں بھی مزید دیر ہو گی، یہی سوچ کر بوجھل دل کے ساتھ انہیں ملے بغیر آگے چلے گئے۔
کٹاس مندر پہنچے تو ایک بورڈ پر نظر پڑی۔ لکھا تھا آب شفاء۔ بریکٹ میں درج تھا مقدس پانی۔ پڑھتے ہی تمام روحانی و جسمانی عارضے یاد آ گئے۔

vlcsnap-2017-02-09-06h50m19s64

سیراب ہونے کو نلکوں تک پہنچے تو ایک اور تختی لگی تھی، لکھا تھا اس فلٹریشن پلانٹ کا افتتاح وزیراعظم نے اب سے دو ہفتے قبل کیا۔ مقدس پانی کی فلٹریشن۔۔۔ ارے بابا پاکیزگی کو تطہیر کی کیا ضرورت؟

img_20170128_134217
ہم نے بے تابی سے ٹونٹی کھولی لیکن ہوا کے سوا کچھ نہ نکلا۔ وہاں لگی تمام ٹونٹیاں آزما لیں لیکن انہوں نے بھی ہماری پیاس بجھانے سے انکار کر دیا۔
ایک اور جنگلے پر بھی لکھا تھا۔۔۔ یہ وزیراعظم کی جانب سے تحفے کے طور پر دیا گیا ہے۔ وہ جنگلہ بھی اندر سے خالی تھا۔
کٹاس مندر کے داخلی دروازے پر ایک صاحب نام وغیرہ درج کرتے ہیں۔ وہی یہ ترغیب بھی دیتے ہیں کہ ویسے تو تمام مندروں کو تالا لگا ہے۔۔ لیکن اگر آپ کوئی گائیڈ لینے اور اسے رقم دینے پر آمادہ ہیں تو وہ تمام مندروں کے دروازے آپ کے لیے کھول دے گا۔ ہم نے شکیل نامی ایک شخص کو رہنما مقرر کیا۔ وہ جس مندر میں بھی لے کر گیا وہ اس سے پہلے کسی گائیڈ نے کھول رکھا تھا اور تمام مندر سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے۔
واپسی پر ہم نے داخلی دروازے پر بیٹھے شخص سے پوچھا، کیوں حضرت، مقدس پانی کب جاری کریں گے؟ بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہنے لگے، بہت جلد۔

پوسٹ اسکرپٹ: اسی کہانی کو ویڈیو میں بھی بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s