پیارے صحافی بھائیو اور بہنو! خاکسار کے خیال میں آج کل صحافت ایک کاروبار ہے اور ہر بیوپار کی طرح اس کا بنیادی مقصد بھی پیسہ کمانا ہے۔ اس میڈیائی بازار میں خبر ایک پراڈکٹ ہے اور صحافی اسے لانے، بنانے اور پیش کرنے والا مزدور۔ آپ کی خبر بکے گی تو کاروبار چلے گا۔
جس سیٹھ کے ہاں آپ مزدوری کرتے ہیں، وہ صحافت کے علاوہ بھی کئی کاروبار کرتا ہے۔ اور میڈیائی کاروبار کرنے کا ایک مقصد اپنے ‘دیگر’ تجارتی مفادات کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔ لہذا آپ کی صحافت بھی اسی سوداگری دائرہ کار میں رہے گی۔ آپ ہر وہ خبر چلانے میں آزاد ہوں گے جس سے سودا بھی بک جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اسی دائرے میں گھومتے ہوئے آپ نے مزدوری کرنی ہے۔ قابل فروخت سچ کو سامنے لانا ہے، مظلوم کی ریٹنگ لانے والی فریاد نشر کرنی ہے، ظالم کا گریبان پکڑنا ہے، یا پھر اپنے گریبان میں جھانکنا ہے۔
سیٹھ کو آپ کی کتنی پروا ہے، جاننے کے لیے صحافی بھائی اور بہن خود سے یہ سوال کر سکتے ہیں۔
کیا کبھی آپ کے ادارے نے آپ کی پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کیا؟
کیا آپ کا کوئی سروس اسٹرکچر بنایا گیا؟
کیا آپ کی کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ یا معیار مقرر کیا گیا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے موجودہ عہدے پر کتنا عرصہ کام کریں گے تو آپ کی ترقی ہو گی؟
ترقی ہو گی بھی یا نہیں؟
تنخواہ کب اور کتنی بڑھائی جائے گی؟ بڑھائی بھی جائے گی یا نہیں؟
(بعض اداروں کے ملازم صحافی تو خود سے یہ سوال کریں، اس مہینے کی تنخواہ بھی ملے یا نہیں؟)
میرا گمان ہے کہ میڈیائی سیٹھ صاحبان جو دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں ان میں شعبہ تحقیق و ترویج بنایا گیا ہو گا۔ جو نئے رجحانات پر نظر رکھتا ہو گا، متعلقہ مصنوعات میں بہتری کی تجاویز دیتا ہو گا۔ کیا ایسا کوئی شعبہ کسی میڈیا کے ادارے میں بھی ہے؟
اگر آپ نے اوپر درج کیے گئے اکثر سوالات کا جواب نہیں میں دیا ہے تو ممکنہ طور پر کہا جا سکتا ہے، سیٹھ صاحب کو آپ میں کوئی دلچسپی نہیں۔ آپ ایک آئٹم ہیں، اور آپ جیسی بے شمار آئٹمز مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
اس صورتحال میں کچھ میڈیا ہاؤس اچانک بہت سے ‘ملازمین’ کو نکال دیں تو دکھ ہوتا ہے، حیرت نہیں ہوتی۔ کیوں کہ مالکان کی ترجیح میں کارکن کہیں بھی نہیں ہے۔
سوال تو میڈیا کے ساتھی مزدوروں سے کیا جانا چاہیے۔۔۔صحافی کا موبائل چھننے پر تو احتجاج کرتے ہیں، نوکری چھننے پر کیا کریں گے؟
پس تحریر: اپنے گریبان میں جھانکیں تو بعض اوقات چند کارکن صحافیوں کے رویوں پر بھی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ انہیں بھی کسی نئے ادارے سے پیشکش ہو تو نوٹس دیے بغیر فوراً اڑان بھر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی کرے تو کیا کرے؟