یہ محمد معاذ ہیں۔ ہمارے ٹیلی وژن چینل میں جو شعبہ نیوز رپورٹس تیار کرتا ہے، اس کے سربراہ ہیں۔ کام سے شدید محبت کرتے ہیں۔ کام میں دیہان کا یہ عالم ہے کہ جب ہم نیوز روم میں کسی خیال پر گفتگو کر کے ان سے رجوع کرتے ہیں تو معاذ اسے پہلے ہی شروع کرا چکے ہوتے ہیں۔
انہیں کوئی کام کہہ دیا جائے تو پھر بے فکری ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہ جان پر کھیل کر بھی پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
بہت زیادہ کام کرنے کی وجہ سے اکثر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ مسکراہٹ چہرے سے غائب رہتی ہے۔ شام چار بجے دفتر میں ایک مجلس بلائی جاتی ہے جس میں دن بھر جلنے والی خبروں کا ذکر کیا جاتا ہے اور شام کے خبر ناموں کے لیے لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ سے قبل تو ان کی سنجیدگی سوا ہوتی ہے۔ سوچ کی شدت غلبہ پاتی ہے تو دونوں ہاتھوں سے اپنا ہی سر تھام لیتے ہیں۔ استغراق کا ایک عالم طاری ہوتا ہے۔ غیب سے جانے کیا کیا مضامین خیال میں آتے ہیں۔ جب تک مجلس کی کارروائی باضابطہ طور پر شروع نہ ہو یہ اسی کیفیت میں رہتے ہیں۔
ایسی ہی ایک میٹنگ میں ہمیں بھی شامل ہونے کی سعادت ملی۔ معاذ صاحب کو دونوں ہاتھوں سے سر تھامے دیکھا تو یہ لمحہ کیمرے کی آنکھ سے قید کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ ہمارا ارادہ بھانپ گئے یا ہماری سادگی پر پیار آ گیا۔۔۔ بے ساختہ تبسم فرمانے لگے۔ کچھ دیر میں تبسم مزید نمایاں ہو کر باقاعدہ قسم کی ہنسی میں ڈھل گیا۔ تصویر دیکھ کر اندازہ لگائیے کہ معاذ مسکراتے ہوئے بھی اچھے لگتے ہیں۔ اور انہیں رائے دیجیے کہ ہر وقت کی فکر اچھی بات نہیں۔
اللہ آپ کو یوں ہی ہنستا مسکراتا رکھے۔