پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوا تو اس ہنگام ہمارے ٹیلی وژن چینل نے بھی دھوم دھام سے ٹرانسمش کی۔ اسی کی شاباش دینے کو ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ لہذا نیوز روم رنگ رنگ کی لڑیوں اور غباروں سے سجایا گیا۔ خبر کو تخلیقی اور تکنیکی اعتبار سے پیش کرنے والے سبھی افراد نے رونق بخشی۔
ادھر تقریب کی تیاریاں جاری تھیں، اُدھر احباب تصویریں لے رہے تھے۔ ندیم زعیم صاحب بھی بھاری بھرکم کیمرہ اٹھائے عکاسی کرتے پھرتے تھے۔ بھانت بھانت کے لوگ سہج کر سامنے کھڑے ہوتے، یہ کھٹ سے وہ لمحہ قید کر لیتے۔
پھر بیورو سے دوستوں کی آمد شروع ہوئی۔ خبروں کے لیے جن سے روز رابطہ رہتا ہے ان سے ملاقات کا بھی اہتمام ہوا۔
رفتہ رفتہ وسیع و عریض نیوز روم یوں بھر گیا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ تقریب شروع ہوئی تو ہمارا کام تب تک ختم نہ ہوا تھا۔ کچھ ہمی جانتے ہیں کس جی سے اپنی کرسی پر بیٹھے رہے۔ ساؤنڈ سسٹم سے اٹھنے والی ہر لے پر ہمارے قدم تھرکنے لگتے، اور دل تقریب میں شامل ہونے کو مچلنے لگتا۔
جیسے تیسے اپنے حصے کا کام نبیڑ کر ہم بھی میلہ دیکھنے والوں میں شامل ہوئے۔ کوئی تالیاں پیٹ رہا ہے، کوئی نعرے لگا کر
حوصلہ بڑھا رہا ہے، کوئی فقط مسکرا رہا ہے۔ سب نے مل کر کام کیا تھا، سبھی مل کر خوشیاں منا رہے تھے۔
تقریب کے بعد کھانے پینے کا انتظام تھا۔ یہاں پھر وسیع پیمانے پر سیلفیوں کا دور چلا۔ لیکن ہم نے اپنی توجہ سموسوں اور جلیبی سے بھٹکنے نہ دی۔ یہاں ہم نے شکم پروری اور بندگی کو عجب انداز میں یک جان کیا۔ بارگاہ ایزدی میں دعا کی، اے پروردگار، اگر آج ہم دو سموسے کھائیں تو ہماری تنخواہ میں دگنا اضافہ ہو، اور سموسے کے ساتھ جلیبی بھی کھا لیں تو تین گنا اضافہ ہو جائے۔ دعا کو قبولیت کا درجہ مل گیا تو اس مہینے کے آخر میں ہماری تنخواہ نو گنا اضافے کے ساتھ آنے والی ہے۔
تصویریں اور تبصرے
یہ فہد حسین صاحب ہیں۔ ہمارے ادارے کے سربراہ ہیں اور ہمارے رہنما ہیں۔ پی ایس ایل پر خصوصی نشریات کاخیال بھی انہی کا تھا، رہبری بھی انہوں نے ہی فرمائی اور پھر ہماراحوصلہ بڑھانے کو یہ تقریب بھی انہوں نے ہی سجائی۔
تصویر میں دائیں ہاتھ اویس حمید صاحب ہیں۔ اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں، جبھی یہ مسرور اور ان کے بائیں ہاتھ کھڑے عبدالستار ترین صاحب محتاط نظر آتے ہیں۔
یہ عمر رحمان ہیں لیکن داڑھی کے سفید بال دیکھ کر لگتا ہے ہماری طرح یہ بھی عمر دراز ہو چکے ہیں۔ تقریب کے دوران یہ کام کر رہے تھے۔ اس میں ان کے کٹھور پن سے زیادہ نشریاتی مجبوریوں کا دخل تھا۔
یہ ندیم جمال صاحب ہیں۔ نیوز کو قابو رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ یعنی ان کا عہدہ کنٹرولر نیوز کا ہے۔ اس وقت ان کے چہرے پر چھائی سنجیدگی دیکھ کر لگتا ہے کسی بیورو نے شکایت کی ہے، سر ہماری فلاں اسٹوری نہیں چلی۔
دائیں ہاتھ شوکت علی ہیں بائیں ہاتھ رائے شاہنواز۔ نہ ان کی شوکت پر کسی کو شبہ ہے نہ اُن کی رائے پر کسی کو ابہام۔
دائیں ہاتھ سجاد عبداللہ ہے۔ ان دنوں رات کی شفٹ میں ہوتا ہے۔ تقریب کی خوشیوں میں شرکت کرنے سر شام آیا۔ بے چارے کو ڈیوٹی کے دوران ‘مشکل’ ہوئی ہو گی۔ بائیں ہاتھ بٹ صاحب ہیں۔ سموسے کی پلیٹ چھوڑتے ہی نہ تھے۔ ہم نے کہا یوں تصویر اچھی نہ آئے گی، تب انہوں نے گھبرا کر پلیٹ رکھ دی۔ ان کے عقب میں مس ارم غنی ہیں۔ سوچ رہی ہیں اللہ نے کپ دیا ہے تو چائے بھی دے ہی دے گا۔
دائیں ہاتھ موجود معصوم سا انسان عمر بلال ہے۔ یہ بائیں ہاتھ موجود فرخ جاوید کو پولکا آئس کریم سمجھ کر اس کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا۔
ان سب کے حصے کے سموسے جلیبیاں خاکسار کھا گیا ہے۔ اب یہ آسمان سے من و سلویٰ اترنے کا انتظار کر رہے ہیں۔