کہنے لگی، آپ آ رہے ہیں نا؟ اچھا۔ آپ نہیں آتے تو میں خود آ جاتی ہوں۔۔۔
اس نے بتایا تھا کہ والد قصور میں کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن کہاں کرتے ہیں یہ نہیں معلوم۔ اور جب اس نے کہا میں خود آ جاتی ہوں تو مجھے مزید کھٹکا ہوا۔
فون بند کر کے کہنے لگی، ابو کو شور کی وجہ سے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی، اس لیے ایسا کہہ دیا۔ وہ بس آنے ہی والے ہیں آپ بے شک چلے جائیں۔
میں اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہو چکا تھا، اس لیے امی جان سے کہا آئیں گھر چلتے ہیں۔ لیکن وہ تنہا لڑکی کو یوں چھوڑ جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ دوبارہ اسی نمبر پر فون ملایا، اب امی جان نے بات کی تو فون پر موجود شخص نے پھر یہی کہا کہ وہ تو اس لڑکی کو جانتا تک نہیں۔
معاملہ میں واضح طور پر کوئی گڑ بڑ تھی،
لیکن میری سادہ والدہ کہنے لگیں، شاید یہ اپنے ابو کا نمبر بھی بھول گئی ہے، ہم اسے اپنے گھر لے چلتے ہیں۔ جب اسے نمبر یاد آئے گا تو رابطہ کر لے گی۔
ارے کیسے اسے گھر لے جائیں؟ شاید وہ لڑکی گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔ شاید جس شخص کے کہنے پر وہ گھر سے بھاگی ہے اب وہ اسے اپنانے سے انکاری ہے۔ شاید یہ کوئی جرم کر کے فرار ہوئی ہو۔ آج کل تو دہشت گرد بھی خواتین کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسے کسی سہولت کار نے وصول کرنا ہو لیکن ہمیں دیکھ کر سامنے نہ آ رہا ہو۔
دس قسم کے خدشے میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔
آخر کو میں نے تجویز دی کہ اسے واپسی کی بس پر بٹھا دیتے ہیں۔ یوں ہم پر کوئی ذمہ داری بھی نہ رہے گی۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ رات کے اس پہر لڑکی کے علاقے کو کوئی بس نہ جاتی تھی۔ لاری اڈے سے معلوم کیا، ایک بس نے رات ایک بجے روانہ ہونا تھا، جو صبح چھ بجے کے قریب منزل پر پہنچتی ۔ امی جان نے فیصلہ کیا کہ یہ لڑکی ہمارے ساتھ گھر چلے گی اور رات ایک بجے ہم اسے بس پر سوار کرا دیں گے۔
میں اس پریشانی میں مبتلا کہ اگر تو یہ لڑکی گھر سے بھاگی ہے، یا کسی واردات میں ملوث ہے تو اسے گھر لے جانے سے ہم کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔
گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہوئے تو میں نے پوچھا۔۔۔