پہلا حصہ
دوسرا حصہ
تیسرا حصہ
اب لاپتہ لڑکی کے گھر والوں کا فون آ گیا۔ کہنے لگے ہماری ن سے بات کرائیں۔ ہم نے کہا یہ تو اپنا نام س بتاتی ہیں۔ وہ کہیں آپ بات تو کرائیں۔ س نے بات کی اور انہیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔ وہ کہنے لگے، بچی ہماری ہی ہے، ناراضی میں پہچاننے سے انکار کر رہی ہے، ہم تو آپ کے گھر آنے کے لیے نکل پڑے ہیں۔
یہ صورتحال تو سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گئی۔
اگر وہ اس کے گھر والے نہ ہوئے لیکن پھر بھی لے جانے پر اصرار کیا تو ہم کیسے تصدیق کریں گے؟ اگر انہوں نے لے جانے کے لیے زبردستی کی تو ہم کیسے نمٹیں گے۔ اگر وہ لوگ اسی لڑکی کے گھر والے ہوئے اور غصے میں آ کر اسے کوئی نقصان پہنچا دیا؟ یا لڑکی نے خوف یا پریشانی میں خود اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیا تو پھر کیا ہو گا؟
ایک ایک لمحہ پہاڑ بن کر گزرنے لگا۔ ہر سیکنڈ کوئی نیا خدشہ سر اٹھاتا اور ہم کانپ کانپ جاتے۔
خیر وہ صاحبان ٹیلی فون پر پتہ پوچھ ہمارے گھر آن پہنچے۔ دروازوے پر ان کا استقبال کیا تو بھلے سے لوگ معلوم ہوئے۔ انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھایا۔ لڑکی کا والد ہونے کے دعوے دار صاحب سے شناختی کارڈ طلب کیا۔ شناختی کارڈ پر درج نام وہی تھا جو بچی اپنے والد کا بتا چکی تھی، آبائی پتہ بھی وہی۔ اب ان سے دیگر تفصیلات پوچھیں۔ لڑکی کے چچا، ماموں اور بھائیوں کے نام۔ انہوں نے ہو بہو وہی بتائے جو س ہمیں بتا چکی تھی۔
تب ہم نے ڈرتے ڈرتے س کو بلایا۔ وہ آنے پر آمادہ نہ تھی، لیکن اسے یقین دلایا کہ تمہیں کچھ نہ ہونے دیں گے۔ جب ڈرائنگ روم میں آئی تو اس کے والد نے اٹھ کر سر پر رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ وہ سعادت مندی سے قریب آئی اور اپنا سر جھکا دیا، کسی غیریت کا اظہار نہ کیا۔ تب ہمیں اطمینان ہوا کہ انہی کی بیٹی ہے۔ انہوں نے فون کر کے اس کی والدہ سے بات کرائی۔ اس نے بات کر لی اور ہمیں یقین ہوا کہ لڑکی کو لانے والے اس کے اپنے ہی ہیں۔
سر سے ایک بوجھ اترا۔
معلوم ہوا کہ ایک ماہ قبل ہی اس کی شادی ہوئی، شوہر سے کسی بات پر تکرار ہوئی تو ناراض ہو کر گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ یہاں لاہور میں کسی کو جانتی تھی نہ یہ طے کیا تھا کہ آگے کیا ہو گا۔ ایسا نادان غصہ بھی کسی کو نہ آئے۔
خیر صاحب۔ معاملہ خیر خیریت سے اپنے انجام کو پہنچا۔ وہ راضی خوشی اپنے والد کے ساتھ چلی گئی اور ہم ایک بہت بڑی ذمہ داری سے سرخرو ہوئے۔ (ختم شد)