انگریزی اخبار نے خبر اڑائی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت چین میں بوجھ ڈھونے والے چوپائے بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک تو چین میں مذکورہ چوپائے کی مانگ بہت ہے، کہ اس کا گوشت لاہوریوں کے ساتھ ساتھ چینیوں کو بھی مرغوب ہے۔ دوسرا اس کی کھال دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ خواتین آرائش حسن کا جو سامان استعمال کرتی ہیں، اس میں بھی شوہروں کی کمائی کے ساتھ ساتھ متذکرہ چوپائے کی کھال استعمال کی جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت اس منصوبے سے بہت سا زر مبادلہ کمانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چوپائے کی افزائش نسل کے لیے تجاویز بھی منصوبے کا حصہ ہیں۔ تاہم عاجز کی رائے میں برآمد کرنے ہی ہیں تو صحافی کیے جائیں۔ ان کی افزائش نسل کی بھی ضرورت نہیں، پہلے ہی گنجائش سے بڑھ کر ہیں۔
صحافیوں کو بھی چونکہ فقط مشقت ہی کرنا ہوتی ہے، لہذا فہم و فراست سے فاصلہ رکھتے ہیں، حکم حاکم پر سر جھکائے بھاگتے رہتے ہیں، تھک جائیں تو ایک چابک پڑتے ہی پھر سرپٹ دوڑنے لگتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے۔ چین میں صحافیوں کی منڈی لگی ہو گی۔ خریداروں کا اژدھام ہو گا۔ ہر صحافی کے کان میں اس کا پرائس ٹیگ اور گلے میں پریس کارڈ لٹکا ہو گا۔ ارے یہ جھکی جھکی کمر والے صحافی کون ہیں؟ یہ نیوز روم کے کلرک ہیں۔ ایک کام کی زیادتی، دوسرا نامناسب دفتری فرنیچر۔۔۔ اس لیے ڈب کھڑبے ہو گئے ہیں، کمر اور گردن نوے درجے کا زاویہ بنانے لگے ہیں۔ یہ کھردری جلد والے صحافی کون ہیں؟ یہ رپورٹر ہیں، پریس ریلیز سے خبر بنانے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار فیلڈ رپورٹنگ بھی کر دیتے ہیں۔ اس لیے دھوپ میں سانولے اور کھردرے ہو گئے ہیں۔ یہ خوشبو دار اور ملائم صحافی کون ہیں؟ یہ اینکر ہیں۔ نہ بھئی، ایک تو یہ بہت زیادہ بول رہے ہیں، دوسرا بہت اونچا بول رہے ہیں، میں تو کبھی نہ خریدوں۔ یہ صحافی مجھے دیکھ دیکھ مسکرائے کیوں جا رہے ہیں؟ یہ کیمرہ مین ہیں، آپ فوٹو جینک ہیں نا، تو یہ من کی آنکھ سے آپ کی تصویر بنا رہے ہیں۔ یہ صحافی مجھے دیکھ کر قلم کیوں چلانے لگے ہیں؟ دراصل یہ کالم نگار ہیں، آپ کی تعریف میں کالم لکھ رہے ہیں۔ میری تعریف سے انہیں کیا ملے گا؟ لفافہ۔ اگر میں لفافہ نہ دوں تو؟ اگلا کالم آپ کی برائی میں ہو گا۔ ان صحافیوں نے ہاتھوں میں قینچیاں کیوں پکڑ رکھی ہیں؟ کیوں کہ یہ ایڈیٹر ہیں۔ لیکن یہ قینچیاں تو کند ہیں؟ آج کل استعمال نہیں ہوتیں نا، پہلے پہل خبر کو ایڈٹ کیا جاتا تھا، آج کل جیسی موصول ہو اگلے لمحے ویسی ہی نشر کر دی جاتی ہے۔
لہذا عاجز کی خیبر پختونخوا حکومت سے درخواست ہے، اپنے منصوبے میں ترمیم کرے۔ چین بھیجنے کے لیے بوجھ ڈھونے والے چوپائے کی بجائے صحافی ہر لحاظ سے بہتر رہیں گے۔
بے شک سال کے سال ان کی تنخواہ نہ بڑھائیے، بھلے مہینے کی پہلی کو ان کی مزدوری ادا نہ کیجیے، بلکہ کئی کئی مہینے نہ دیجیے، بیگار لیجیے، یہ سر جھکا کر کام کرتے چلے جائیں گے۔ افسران اور حالات کی مار سہتے سہتے ان کی کھال بھی سخت ہو چکی ہوتی ہے، وہ بھی کار آمد رہے گی۔
یہاں پہنچ کر عاجز کی رائے میں تعصب آیا چاہتا ہے (یا شاید عاجز کو ذاتی مفاد عزیز ہے)۔ چین کے لیے چھانٹی کرتے ہوئے نیوز روم میں کام کرنے والے صحافیوں کو ترجیح دی جائے۔ وقت پر آئیں گے، وقت ختم ہونے کے بعد بھی کام کرتے رہیں گے۔ اور دفتری اوقات کار میں پریس کلب کے بجائے دفتر میں ہی پائے جائیں گے۔ دوسروں کا کیا کرایا اپنی جان پر بھگتیں گے اور چوں تک نہ کریں گے۔
آخر میں رہ گئی بات دولتیاں مارنے کی، تو یہاں عاجز خاموش رہنا پسند کرے گا، کیوں کہ دولتیاں مارنے کا کام ارادتاً نہیں، عادتاً کیا جاتا ہے۔
Hahahaha khoob ast
پسند کریںپسند کریں