امریکی صدر اہل و عیال کے ہمراہ سعودی عرب سے اسرائیل پہنچے تو ایک واقعہ خلاف معمول ہوا۔ جہاز سے اترنے کے بعد سرخ قالین پر چلتے ہوئے ٹرمپ نے (اپنی) اہلیہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا اور انہوں نے بے نیازی سے جھٹک دیا۔ جیسے کہہ رہی ہوں چھڈ میری وینی نہ مروڑ، کچ دیاں ونگاں نہ تروڑ (چھوڑو، میرے کلائی نہ مروڑو، کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ جائیں گی)
اب خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے ۔۔۔ شاید یہ میلانیہ کی ادا ہی ٹھہری ہو، لیکن یہاں تو ترک تعلق کے فسانے گھڑ لیے گئے۔ بھئی ہو سکتا ہے خاتون اول وہاں سعودی عرب میں کوئی فر کوٹ خریدنے کو مچل گئی ہوں اور ٹرمپ نے ٹھینگا دکھا دیا ہو۔ شاید ٹرمپ نے کہا ہو، "بھلیے لوکے، گرمیوں میں فر کوٹ کون پہنتا ہے؟ اور میں نے کون سی لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں جو تمہارے فر کوٹ پر پیسے اجاڑوں۔” میلانیہ نے جواب دیا ہو گا، "گرمیوں کی وجہ سے ہی تو پندرہ پرسنٹ سیل لگی ہوئی ہے۔”
امریکی صدر نے اپنی بیگم کو کہا ہو گا، "سادہ لوکے! ابھی ابھی تو سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ہتھیار بیچے ہیں، ابھی بھی ہم نے ڈسکاؤنٹ پر ہی چیزیں لینی ہیں تو چار حرف اس تجارت پر۔ ویسے بھی میں تمہیں روسی ریچھ کی کھال کا کوٹ لے کر دوں گا، وہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔ اور وہاں سے میرا خاص دوست شاید مفت ہی بھجوا دے۔” کو پڑھنا جاری رکھیں
Monthly Archives: مئی 2017
ہمارے ستاروں کی غلطی
ہمارے ستاروں کی غلطی۔۔۔
دی فالٹ ان آور اسٹارز کا بھلا اور کیا ترجمہ ہو؟ جان گرین صاحب کا یہ ناول جانے کب سے ہمارے پاس پڑا تھا۔ اب کی بار چھٹیوں کے دوران یونہی وقت گزارنے کو چند صفحے پلٹے تو کہانی نے اپنی گرفت میں لے لیا۔
کہانی کا مرکزی کردار ایک نوجوان لڑکی ہیزل ہے جو کینسر کی مریضہ ہے۔ مرض کی وجہ سے وہ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی، لیکن والدہ کے مجبور کرنے پر کینسر سے متاثرہ افراد کے اجتماع میں شرکت کرنے لگتی ہے۔ یہاں اس کی ملاقات ایک خوش وضع نوجوان آگسٹس سے ہوتی ہے جو محبت میں بدل جاتی ہے۔
ہیزل کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ اسے ایک ناول بہت پسند ہے جس میں ناول نگار نے کہانی ادھوری چھوڑ دی ہے۔ ہیزل اس تجسس میں مبتلا ہے کہ ناول کی پوری کہانی کیا ہو گی۔ آگسٹس بھی یہ ناول پڑھتا ہے اور اسی تجسس میں گھر جاتا ہے۔
دونوں ناول نگار سے ملاقات کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ اس سے مکمل کہانی سن سکیں۔ کو پڑھنا جاری رکھیں
بعد میں دیکھی جائے گی
دفتری ساتھی کو پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی۔ بہت دیر تک تو معلوم ہی نہ ہونے دیا۔ جب ہم نے چہرے کی رنگت متغیر دیکھی تو پوچھا کیا معاملہ ہے؟ دل میں سوچا، ہو نہ ہو اس کی وجہ وہ ناشتہ ہے جو صبح نیازی صاحب لائے تھے اور ان صاحب نے اس سے خوب انصاف کیا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درد بھی بڑھتا گیا۔ ہم نے انہیں دفتر سے چھٹی لے کر ڈاکٹر کے ہاں جانے کی تجویز دی، وہ آمادہ نہ ہوئے۔ شاید انہیں خدشہ تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں کام زیادہ بہتر طریقے سے ہو جائے گا۔
بہرحال، کچھ ہمارے سمجھانے اور کچھ تکلیف کے بڑھ جانے پر وہ دفتر سے چھٹی لینے اور ڈاکٹر کے ہاں جانے پر رضامند ہو گئے۔ کو پڑھنا جاری رکھیں