اپنی زندگی کے آخری دن، اٹھارہ سالہ امریکی نوجوان کانریڈ رائے کو موبائل فون پر ایک پیغام موصول ہوا
"تم کر سکتے ہو، اس بارے میں سوچو مت، بس کر گزرو!”
یہ پیغام بھیجنے والی لڑکی کانریڈ کی سترہ سالہ دوست مشیل کارٹر تھی، اور کانریڈ کو خودکشی کی ترغیب دے رہی تھی۔ اگلے روز کانریڈ کی لاش اس کی گاڑی سے ملی۔ دم گھٹنے سے اس کی موت ہو چکی تھی۔


یہ واقعہ 2014 میں پیش آیا۔ اب مشیل پر مقدمہ چل رہا ہے کہ اس نے اپنے دوست کو خودکشی پر اکسایا۔ کانریڈ کے والدین میں علیحدگی ہو چکی تھی اور وہ 2012 میں بھی خودکشی کی کوشش کر چکا تھا۔
ایک روز اس نے اپنی دوست کو موبائل پر پیغام بھیجا، "مجھے اپنے ماضی پر افسوس ہے، میں اس وجہ سے پریشان رہتا ہوں۔”
مشیل کا جواب تھا، "خودکشی کر لو۔” اس پر کانریڈ نے لکھا، "کیا مجھے کر لینی چاہیے؟”
مشیل کارٹر صاحبہ تو پکی ہی ہو گئیں، اور ہر حال میں کانریڈ کو خودکشی کرانے پر تل گئیں۔ اسے خودکشی پر اکسانے، بلکہ مجبور کرنے لگیں۔
دونوں کے درمیان موبائل فون پیغامات پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کانریڈ مرنا نہیں چاہتا تھا، صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا، تاہم مشیل صاحبہ نے کہا اس سے تکلیف تو ختم نہیں ہو گی۔ بعد میں انہوں نے مشورہ دیا، انٹرنیٹ پر کاربن مونو آکسائیڈ پیدا کرنے کے طریقے دیکھو۔ کانریڈ نے انٹرنیٹ سرچ کے بعد بتایا، ایک جنریٹر سے یہ کام ہو سکتا ہے۔ (یعنی کسی بند جگہ پر جنریٹر چلایا جائے، جس سے کاربن مونو آکسائیڈ پیدا ہو گی اور اس کی جان لے لے گی)۔
بعد کے پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کانریڈ خودکشی کے بارے میں سنجیدہ نہ تھا (بس بات منہ سے نکال کر پھنس چکا تھا)، لیکن مشیل روز اس سے پوچھتی۔ کانریڈ پس و پیش سے کام لیتا تو مشیل کہتی، "لگتا ہے تم اس معاملے میں سنجیدہ نہیں، ہر روز تم کہتے ہو کہ آج (خودکشی) کروں گا لیکن پھر ٹال دیتے ہو۔ مجھے یقین ہے تم کوئی نہ کوئی بہانہ بناؤ گے۔”
پھر پوچھا، "کیا تم نے جنریٹر حاصل کر لیا؟”
کانریڈ نے کہا، "ابھی نہیں،” تو (چڑ کر) پوچھنے لگیں آخر کب لو گے؟ اور دیکھو کہیں پکڑے نہ جانا۔
اس مرحلے پر کانریڈ کو اپنے والدین کا خیال آیا، یا خودکشی سے بچنے کو کہنے لگا، ان کا کیا بنے گا؟ تو مشیل صاحبہ تسلیاں دیتے ہوئے کہنے لگیں، "انہیں دکھ تو ہو گا لیکن آخر کار وہ اسے تسلیم کر لیں گے۔ انسان کی زندگی میں وہ نقطہ (مقام) آتا ہے جب وہ خود بھی اپنی مدد نہیں کر سکتا۔ میرا خیال ہے تمہارے والدین کے علم میں ہو گا کہ تمہاری زندگی میں وہ نقطہ آ چکا ہے۔ ایک بار تم نے بتایا تھا کہ تماری والدہ نے تمہارے کمپیوٹر پر خودکشی سے متعلق مواد دیکھا تھا اور تمہیں کچھ نہ کہا تھا۔ میرا خیال ہے ان کے علم میں ہے کہ تم خودکشی کے بارے میں سوچ رہے ہو اور وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہیں۔”
پیغامات سے واضح پتہ چلتا ہے کانریڈ خودکشی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک مرحلے پر اس نے کہا، "میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ جو کوئی بھی دروازہ کھولے گا، کاربن مونو آکسائیڈ اس کے پھیپھڑوں میں بھی چلی جائے گی (اور اسے نقصان پہنچے گا)۔” مشیل صاحبہ فرمانے لگیں، "فکر نہ کرو، وہ جنریٹر دیکھ لیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ تم کاربن مونو آکسائیڈ سے مرے ہو۔”
ایک اور پیغام میں کہا، "یہ ہی وقت ہے، تم خودکشی کے لیے تیار ہو، بس کر گزرو۔ تم اس طرح زندگی نہیں گزار سکتے۔”
کانریڈ نے کہا، "لیکن مجھے اپنے خاندان کی فکر ہے۔”
مشیل نے جواب دیا، "کانریڈ، میں ان کا خیال رکھوں گی۔ ہر کوئی ان کا خیال رکھے گا۔ وہ ٹھیک رہیں گے اور تمہاری خودکشی سے سمجھوتہ کر لیں گے۔ جو لوگ خودکشی کرتے ہیں وہ اتنا نہیں سوچتے، وہ بس کر گزرتے ہیں۔”
آخر کار مشیل کارٹر کے کہنے سننے سے کانریڈ رائے نے خود کو اپنی گاڑی میں بند کیا اور گاڑی میں رکھا چھوٹا جنریٹر آن کر دیا۔ مشیل کارٹر اس وقت بھی فون پر اس کے ساتھ رابطے میں تھی۔ ایک موقع پر کانریڈ دم گھٹنے سے گھبرا کر گاڑی سے باہر نکلنے لگا تو مشیل نے ہی اسے گاڑی میں بیٹھے رہنے کا کہا۔
کانریڈ کی موت کے بعد مشیل نے خود کو اس کی غم زدہ گرل فرینڈ کے طور پر پیش کیا۔ یہاں تک کہ کانریڈ کے اعزاز میں ایک سافٹ بال ٹورنامنٹ بھی کرایا اور ذہنی صحت کی آگاہی کے لیے رقم اکٹھی کی۔
شاید توجہ حاصل کرنا ہی مشیل کا واحد مقصد تھا۔
اب مشیل پر اپنے دوست کو خودکشی کے لیے اکسانے کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس کے وکلاء دفاع میں کئی دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پیغامات آزادی اظہار رائے کے زمرے میں آتے ہیں۔
حد ہوگئی 😥
پسند کریںپسند کریں
شخصی آزادی کا شاخسانہ
پسند کریںپسند کریں