ایک زمانہ تھا جب اقبال پارک گریٹر نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ اقبال پارک جانا ہو تو ویگن والے سے کہا جاتا تھا، بھائی یادگار پر اتار دینا۔ اور یہ وہی جگہ ہے جہاں برسوں پہلے ایک یار عزیز نے راہ چلتے شخص سے پوچھا تھا، یادگار کتھے وے۔ اور اس نے مینار پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا، ایدھر ویخھو پائین۔ او کھڑی اے (ادھر دیکھیں بھائی جان، وہاں کھڑی ہے)
اب تو صاحب اس پارک کو وسعت دی جا چکی ہے۔ گاڑیوں کے لیے پارکنگ فراخ بھی ہے اور مفت بھی۔ مینار پاکستان، بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ۔۔۔ سبھی کو ایک احاطے میں سمو دیا گیا ہے۔ مینار پاکستان دیکھنے کے بعد ٹریفک میں سے بچتے بچاتے پھلانگے جھپٹتے سڑک نہیں پار کرنی پڑتی بلکہ خوبصورت روشوں سے ہوتے ہوئے پہنچا جا سکتا ہے۔
پارک خوبصورت تو ہے، لیکن اگر آپ نے میڈیا کے ڈرون کیمروں کے ذریعے اس کے مناظر دیکھ کر یہاں کا رخ کیا ہے تو یہ بات ذہن میں رکھیے گا جو منظر ڈرون سے نظر آتا ہے وہ آپ زمین پر کھڑے ہو کر نہ دیکھ پائیں گے۔
مینار پاکستان کے اطراف کھدائی ہو چکی ہے، مشینری کھڑی ہے۔ ہمیں فکر ہوئی کہ یہاں سے کوئی انڈر پاس نکالنے کا تو منصوبہ نہیں۔ ایک شخص دکھا، جو تھا تو سادہ کپڑوں میں لیکن انتظامیہ کا معلوم پڑتا تھا۔ اس نے کہا یہاں جھیل بنائی جائے گی۔ ویسے ایک جھیل پہلے بھی موجود ہے جس کی لہروں میں پاکستان کا پرچم لہراتا ہے۔
آپ مینار پاکستان کو دیکھ تو سکتے ہیں لیکن اس کے قریب نہیں جا سکتے۔ مینار پاکستان کے گرد لوہے کی باڑ لگا دی گئی ہے۔ اور یہ بندش آج سے نہیں کئی سال سے ہے۔ پہلے مینار کے چبوترے کے گرد خاردار تار لگائی گئی تھی۔ دل کے ساتھ ساتھ نظروں کو بھی بھلی نہیں لگتی تھی۔ اب مینار پاکستان کو ایک خوبصورت جنگلے میں مقید کر دیا گیا ہے۔
یہاں شاہی قلعے کے ساتھ ساتھ ہوائی قلعہ بھی موجود ہے۔ اس میں ہوا بھری ہوتی ہے اور بچے اچھلتے پھرتے ہیں۔ ہوائی قلعے کا رکھوالا بھی ایک بچہ ہی ہے۔ اسے فی بچہ پچاس روپے دیجیے اور پھر اپنے شہزادے شہزادیوں کو اچھلنے کودنے کی اجازت ملے گی۔
صاحب، اگر ابھی تک آپ نے گریٹر اقبال پارک نہیں دیکھا تو پہلی فرصت میں یہاں آنے کا منصوبہ بنائیے، اچھا وقت گزرے گا۔