گہری سانس لو، اپنے پھیپھڑوں کو ہوا سے بھر لو، اس وقت صبر کرنا ہی مناسب ہے، بعد میں رو لینا۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے کے بعد حلف اٹھا رہے تھے تو اس وقت ان سے مات کھانے والی ہلیری کلنٹن کے دل و دماغ میں انہی خیالات کی یلغار تھی۔
امریکا کی سابق وزیر خارجہ، اور صدارتی انتخاب ہارنے والی خاتون ہلیری کلنٹن کی نئی کتاب پڑھنا شروع کی ہے۔ ہلیری ایک مضبوط امیدوار تھیں، انتخابات میں ان کی شکست پر بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے کتاب کا نام رکھا گیا ہے
What happened
یعنی کہ کیا ہوا؟ کتاب کا آغاز حیریٹ ٹب مین کے ان جملوں سے ہوتا ہے
اگر تم تھک چکے ہو، چلتے رہو
اگر تم خوف زدہ ہو، چلتے رہو
اگر تم بھوکے ہو، چلتے رہو
اگر تم آزادی چاہتے ہو، چلتے رہو
پہلا باب ہی پڑھ پایا ہوں، اور ابھی تک تو یہی لگ رہا ہے کہ بی بی نے کتاب لکھ کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی ہے۔
تعارفی کلمات میں رقم طراز ہیں
یہ سب لکھنا آسان نہ تھا، میں جانتی تھی کہ کروڑوں لوگ مجھ سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، اور میں انہیں مایوس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن میں نے کر دیا۔
ابتدائی کلمات میں ہی روس کی جانب بھی انگلیاں اٹھا دی ہیں۔ ڈائیریکٹر ایف بی آئی پر بھی مداخلت کا الزام لگایا۔ ای میلز لیک ہونے کی خبر کو اچھالنے پر میڈیا سے بھی شکوہ کیا۔
لکھا ہے، "مجھے یقین تھا کہ ٹرمپ ملک اور دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ وہ بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا چکا تھا۔ ہمارے ساتھ مذاق ہو چکا تھا۔ "
پس تحریر: فرصت اور شوق برقرار رہنے کی دعا کیجیے، باقی کتاب کا نچوڑ بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہلیری کلنٹن اس سے پہلے "سخت فیصلے” کے عنوان سے ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔ اس میں پاکستان کے بارے میں باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔